Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Separating The Actions Of Wudu')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
175.
خالد (خالد ابن معدان) ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جبکہ اس کے پاؤں میں درہم برابر جگہ خشک رہ گئی تھی، اسے پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی کریم ﷺ نے اسے وضو اور نماز کے اعادے کا حکم دیا۔
تشریح:
فوائد مسائل: 1۔ معلوم ہوا کہ وضو میں تسلسل لازم ہے۔ 2۔ اگر کوئی شخص تسلسل قائم نہ رکھے اور کچھ اعضا دھو کر اٹھ جائے حتی کہ پہلے والے اعضا خشک ہو جائیں تو اسے وضو دوبارہ کرنا چائیے۔ 3۔ معمولی جگہ بھی خشک رہ جائے تو وضو نہیں ہوتا اور پھر نماز بھی نہ ہو گی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. وقال الامام أحمد: هذا إسناد جيد ، وقوّاه ابن التركماني وابن القيم وابن حجر .
إسناده: حدثنا حيوة بن شريح: ثنا بقية عن بَحِيرٍ - هو ابن سعد- عن خالدعن بعض أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وهذا إسناد رجاله ئقات؛ غير أن بقية مدلس وقد عنعنه، لكن قد ورد عنه مصرحاً بالتحديث كما يأتي؛ فالحديث صحيح. وخالد: هو ابن معدان. والحديث أخرجه البيهقي (1/83) من طريق المؤلف وقال: وهو مرسل ! وقال الذهبي في مختصره : ما أراه إلا متصلا . قلت: وهذا هو الحق؛ وقد بينه ابن التركماني بقوله: قلت: تسميته هذا مرسلاً ليس بجيد؛ لأن خالداً هذا أدرك جماعة من الصحابة، وهم عدول؛ فلا يضرهم الجهالة. قال الأثرم: قلت- يعني: لابن حنبل-: إذا قال رجل من التابعين: حدثني رجل من أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولم يسمه؛ فالحديث صحيح؟ قال: نعم.. ثم إن في سند الحديث بقية، وهو مدلس، وقد عنعن، والحاكم أورد هذا الحديث في المستدرك من طريقه؛ ولفظه: قال: حدثني بحير... فكان الوجه أن يخرجه البيهقي من طريق الحاكم؛ ليسلم الحديث من تهمة بقية.
وأعله المنذري في مختصره بأن: في إسناده بقية؛ وفيه مقال ! قال ابن القيم رحمه الله في تهذيبه : هكذا علل أبو محمد المنذري وابن حزم هذا الحديث برواية بقية له؛ وزاد ابن حزم تعليلا آخر؛ وهو أن راوبه مجهول لا يدرى من هو؟! والجواب على هاتين العلتين:أما الأولى؛ فإن بقية ثقة في نفسه صدوق حافظ، وإنما نقم عليه التدليس مع كثرة روايته عن الضعفاء والمجهويئ، وأما إذا صرح بالسماع فهو حجة، وقد صرح في هذا الحديث بسماعه له. قال أحمد في مسنده : حدثنا إبراهيم بن أبي العباس: ثنا بقية: ثنا بحير [ وفي الأصل: يحيى وهو خطأ واضح ] بن سَعْد عن خالد بن معدان عن بعض أزواج النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فذكر الحديث، وقال: فأمره أن يعيد الوضوء. قال الأثرم: قلت لأحمد بن حنبل: هذا إسناد جيد؟ قال: جيد. وأما العلة الثانية؛ فباطلة أيضا على أصل ابن حزم وأصل سائر أهل الحديث؛ فإن عندهم جهالة الصحابي لا تقدح في الحديث؛ لثبوت عدالة جميعهم، وأما أصل ابن حزم؛ فإنه قال في كتابه في أثناء مسالمة: كل نساء النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثقات فواضل عند الله عز وجل مقدسات بيقين. قلت: والعلة الثانية إنما هي باطلة على أصل ابن حزم بالنسبة إلى الرواية التي نقلها ابن للقيم عن المسند . وأما بالنسبة للرواية التي أوردها ابن حزم في المحلى (2/70- 71) ثم أعلها بما سبق؛ فليست بواردة إلا على أصل سائر الحدثين؛ لأنها كراوية المصنف: عن بعض أصحاب رسولى الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وقال الحافظ في التلخيص (1/442) : وأعله المنذري بأن فيه بقية، وقال: عن بحير؛ وهو مدلس. لكن في المسند ، و المستدرك تصريح بقية بالتحديث؛ وفيه: (عن بعض أزواج النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) : وأجمل النووي القول في هذا فقال في شرح المهذب [1/455] : هو حديث ضعيف الإسناد . وفي هذا الإطلاق نظر؛ لهذه الطرق .قلت: ولم أجد الحديث في المسند ؛ ولا في المستدرك بعد أن راجعته في مظانه (هو في المسند (3/424) وفيه تصريح بقية بالتحديث كما قال الحافظ ابن حجر! (الناشر) .) ، وقد مررت على (كتاب الطهارة) و (كتاب الصلاة) من المستدرك ؛ فلم أعثر عليه! والله أعلم.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
خالد (خالد ابن معدان) ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جبکہ اس کے پاؤں میں درہم برابر جگہ خشک رہ گئی تھی، اسے پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی کریم ﷺ نے اسے وضو اور نماز کے اعادے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد مسائل: 1۔ معلوم ہوا کہ وضو میں تسلسل لازم ہے۔ 2۔ اگر کوئی شخص تسلسل قائم نہ رکھے اور کچھ اعضا دھو کر اٹھ جائے حتی کہ پہلے والے اعضا خشک ہو جائیں تو اسے وضو دوبارہ کرنا چائیے۔ 3۔ معمولی جگہ بھی خشک رہ جائے تو وضو نہیں ہوتا اور پھر نماز بھی نہ ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ایک صحابی رسول ؓ کا ارشاد ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا، اس کے پاؤں کے اوپری حصہ میں ایک درہم کے برابر حصہ خشک رہ گیا تھا، وہاں پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے اسے وضو، اور نماز دونوں کے لوٹانے کا حکم دیا۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : باب کی دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خشک جگہ دھونے کا حکم نہیں دیا، بلکہ پورا وضو کرنے کا حکم دیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کے اعضاء پے در پے مسلسل دھونے چاہئیں، اور ان کے درمیان فاصلہ نہیں ہونا چاہئے، یعنی اعضاء وضو کے دھونے میں فصل جائز نہیں، اس مسئلہ میں دونوں طرح کے اقوال ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اگر زیادہ تاخیر نہ ہوئی ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Some Companions of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم): The Prophet (ﷺ) saw a person offering prayer, and on the back of his foot a small part equal to the space of a dirham remained unwashed; the water did not reach it. The Prophet (ﷺ) commanded him to repeat the ablution and prayer.