باب: قربانی کا جانور منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی تھک کر ( سفر سے لاچار ہو کر ) گر پڑے تو؟
)
Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding The Sacrificial Animal Being Unable To Continue Traveling Before Reaching Makkah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1764.
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے اونٹ نحر کیے تو تیس اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر کیے اور باقی کے متعلق مجھے حکم فرمایا اور میں نے انہیں نحر کیا۔
تشریح:
صحیح تر روایت یہ ہے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سےنحر کیے تھے اور باقی حضرت علی نے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ لعنعنة ابن إسحاق؛ فإنه مدلس، ومتنه منكر؛لمخالفته لحديث جابر الآتي في الصحيح (1663) بلفظ: ثم انصرف صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلى المنحر؛ فنحر بيده ثلاثاً وستين، وأمر علياً فنحر ما غبر، يقول: ما بقي.ثم إن الحديث في الصحيحين عن علي؛ دون ذكر ما نحره صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وما نحرعله، ويأتي في الصحيح أيضاً برقم (1552) ) .إسناده: حدثنا هارون بن عبد الله: ثنا محمد ويعلى ابنا عبيد قالا: ثنا محمد بن إسحاق...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، محمد بن إسحاق- وهو صاحب المغازي- مدلس؛ وقد عنعنه. ومتن الحديث منكر، لما شرحته آنفاً من عدم وروده في حديث علي في الصحيحين ، ولمخالفته لحديث جابر المروي في الصحيح ؛وكذلك قال البيهقي عقب الحديث: كذا قال محمد بن إسحاق بن يسار، ورواية جابر أصح .ونحوه في فتح الباري (3/437) .والحديث أخرجه البيهقي (5/238) من طريق المصنف.وأحمد (1/159- 160) : ثنا محمد بن عبيد: ثنا محمد بن إسحاق... به ثم رأيت الإمام أحمد قد رواه بإسناد صحيح عن ابن إسحاق، كشف فيه عن العلة فقال (1/260) : حدثنا يعقوب: حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال: حدثني رجل عن عبد الله بن أبي نجيح عن مجاهد عن ابن عباس قال... فذكر الحديث أتم منه.فقد بينت هذه الرواية الصحيحة عنه، أن بينه وبين ابن أبي نجيح رجلامجهولاً؛ فهو علة الحديث. على أنه قد اضطرب فيه، فهنا جعله من رواية مجاهدعن ابن عباس. وهناك حين دلسه جعله من رواية مجاهد عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن علي.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے اونٹ نحر کیے تو تیس اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر کیے اور باقی کے متعلق مجھے حکم فرمایا اور میں نے انہیں نحر کیا۔
حدیث حاشیہ:
صحیح تر روایت یہ ہے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سےنحر کیے تھے اور باقی حضرت علی نے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی ہدی کے اونٹوں کا نحر کیا تو اپنے ہاتھ سے تیس (۳۰) اونٹ نحر کئے پھر مجھے حکم دیا تو باقی سارے میں نے نحر کئے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn Abu Talib (RA): When the Apostle of Allah (ﷺ) sacrificed the camels, he sacrificed thirty of them with his own hand, and then commanded me (to sacrifice them), so I sacrificed the rest of them.