Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: )
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1765.
سیدنا عبداللہ بن قرط ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑھ کر عظمت والا دن یوم النحر (دس ذوالحجہ) اس کے بعد یوم القر (۱۱ ذوالحجہ) ہے۔ “ عیسیٰ نے ثور سے نقل کیا کہ یہ دوسرا دن ہوتا ہے۔ اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانچ یا چھ اونٹنیاں لائی گئیں تو وہ آپ کے قریب ہونے لگیں کہ آپ اسی سے ابتدا کریں۔ جب وہ سب (نحر ہو گئیں اور) پہلووں کے بل گر پڑیں تو آپ نے آہستہ سے کچھ فرمایا جو میں نہ سمجھ سکا۔ میں نے (ساتھ والوں سے) پوچھا کہ آپ نے کیا فرمایا ہے؟ تو بتایا کہ ”جو چاہے (گوشت) کاٹ لے جائے۔“
تشریح:
(1) جانوروں کو بھی نبی ﷺ کی جلالت شان کا علم تھا اور وہ آپ کے ہاتھ سے نحر ہونے کو باعث شرف جانتے تھے۔ (2) غیر معین کو ہدیہ کرنا بھی جائزہے۔ (3) صحیح احادیث میں جمعہ کو[خیر یوم] یعنی بہترین دن قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:854) اور اس حدیث میں یوم النحر کو اعظم الایام کہا گیا ہے۔ ان احادیث میں جمع وتطبیق یوں ہے کہ ہفتے کےایام میں جمعہ کا دن اور سال کے دنوں میں دسویں ذوالحجہ کا دن افضل ہے۔ اگر یوم النحر یوم الجمعہ کوہو تو دو فضلتیں جمع ہوگئیں اگر الگ الگ ہوں تو افضیلت یوم النحر کو ہوگی۔ جیسے کہ اس حدیث میں آیا ہے۔ (عون المعبود)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح، وقد صححه ابن حبان والحاكم) .إسناده: حدثنا إبراهيم بن موسى الرازي. وأخبرنا مسدد: أخبرنا عيسى - وهذا لفظ إبراهيم- عن ثور عن راشد بن سعد عن عبد الله بن عامر بن لُحَي عن عبد الله بن قرْطٍ...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات، وقد صححه ابن حبان والحاكم، كما ذكرته في تخريج الحديث في إرواء الغليل (1958) ؛ فلا داعي للإعادة.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا عبداللہ بن قرط ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑھ کر عظمت والا دن یوم النحر (دس ذوالحجہ) اس کے بعد یوم القر (۱۱ ذوالحجہ) ہے۔ “ عیسیٰ نے ثور سے نقل کیا کہ یہ دوسرا دن ہوتا ہے۔ اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانچ یا چھ اونٹنیاں لائی گئیں تو وہ آپ کے قریب ہونے لگیں کہ آپ اسی سے ابتدا کریں۔ جب وہ سب (نحر ہو گئیں اور) پہلووں کے بل گر پڑیں تو آپ نے آہستہ سے کچھ فرمایا جو میں نہ سمجھ سکا۔ میں نے (ساتھ والوں سے) پوچھا کہ آپ نے کیا فرمایا ہے؟ تو بتایا کہ ”جو چاہے (گوشت) کاٹ لے جائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جانوروں کو بھی نبی ﷺ کی جلالت شان کا علم تھا اور وہ آپ کے ہاتھ سے نحر ہونے کو باعث شرف جانتے تھے۔ (2) غیر معین کو ہدیہ کرنا بھی جائزہے۔ (3) صحیح احادیث میں جمعہ کو[خیر یوم] یعنی بہترین دن قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:854) اور اس حدیث میں یوم النحر کو اعظم الایام کہا گیا ہے۔ ان احادیث میں جمع وتطبیق یوں ہے کہ ہفتے کےایام میں جمعہ کا دن اور سال کے دنوں میں دسویں ذوالحجہ کا دن افضل ہے۔ اگر یوم النحر یوم الجمعہ کوہو تو دو فضلتیں جمع ہوگئیں اگر الگ الگ ہوں تو افضیلت یوم النحر کو ہوگی۔ جیسے کہ اس حدیث میں آیا ہے۔ (عون المعبود)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن قرط ؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر ہے پھر یوم القر ہے۱؎۔“ اس دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانچ یا چھ اونٹنیاں لائی گئیں، تو ان میں سے ہر ایک آگے بڑھنے لگی کہ آپ نحر کی ابتداء اس سے کریں جب وہ گر گئیں تو آپ نے آہستہ سے کچھ کہا جو میں نہ سمجھ سکا تو میں نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو چاہے اس میں سے گوشت کاٹ لے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : عیسیٰ کہتے ہیں: ثور نے کہا: وہ دوسرا دن ہے، یعنی گیارہویں ذی الحجہ کا دن۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Qurt (RA): The Prophet (ﷺ) said: The greatest day in Allah's sight is the day of sacrifice and next the day of resting which Isa said on the authority of Thawr is the second day. Five or six sacrificial camels were brought to the Apostle of Allah (ﷺ) and they began to draw near to see which he would sacrifice first. When they fell down dead, he said something in a low voice, which I could not catch. So I asked: What did he say? He was told that he had said: Anyone who wants can cut off a piece.