Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: A Person Who Is Unsure Of Breaking His Wudu')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
177.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو اور اپنی دبر میں کوئی حرکت محسوس کرے، آیا ہوا خارج ہوئی ہے یا نہیں اور اسے شبہ ہو گیا ہو تو نماز چھوڑ کر نہ جائے حتیٰ کہ آواز سنے یا بو محسوس کرے۔“
تشریح:
فوائد مسائل: جب طہارت کا یقین ہو اور وضو ٹوٹنے کا محض شبہ ہو تو نمازی کو چائیے کہ اپنے یقین پر عمل کرے۔ اور ویسے بھی مسلمان کو شبہات کے پیچھے نہیں پڑنا چائیے بلکہ شبہات سے بچنا چائیے۔ اسی لیےفقہ کا قاعدہ ہے کہ یقین شک سےزائل نہیں ہوتا۔ (الاشباہ والنظائر)
الحکم التفصیلی:
وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وأخرجه أبو عوانة أيضا في صحيحه ) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد: أخبرنا سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة. وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم، وقد أخرجه في صحيحه كما يأتي.وحماد: هو ابن سلمة. والحديث أخرجه الدارمي (1/183) ، وأحمد (2/414) من طريقين آخرين
عن حماد... به. وأخرجه أبو عوانة في صحيحه (1/267) ، وكذا مسلم والترمذي والبيهقي من طرق أخرى عن سهيل... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . ورواه الطيالسي (رقم 2422) : ثنا شعبة عن سهيل بن أبي صالح... به مختصراً بلفظ: لا وضوء إلا من صوت أو ريح . وكذلك رواه الترمذي أيضا وابن ماجه وأحمد (2/410 و 435) من طرق عن شعبة... به. وله شاهد من حديث السائب بن خَبَاب : في المسند (3/426) ، وابن ماجه، وسوف نتكلم عليه في صحيحه إن شاء الله. ثم قال الترمذي أيضا: هذا حديث حسن صحيح . وآخر من حديث أبي سعيد الخدري: أخرجه أحمد (3/96) ، وأبو يعلى (1249) ، وابن عدي (5/199) من طريق علي بن زيد عن سعيد بن المسيب عنه. وعلي بن زيد- وهو ابن جدعان- حسن الحديث في الشواهد. ورواه ابن ماجه (514) من وجه آخر عن سعيد... به مختصرا؛ ولكنه معلول.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو اور اپنی دبر میں کوئی حرکت محسوس کرے، آیا ہوا خارج ہوئی ہے یا نہیں اور اسے شبہ ہو گیا ہو تو نماز چھوڑ کر نہ جائے حتیٰ کہ آواز سنے یا بو محسوس کرے۔“
حدیث حاشیہ:
فوائد مسائل: جب طہارت کا یقین ہو اور وضو ٹوٹنے کا محض شبہ ہو تو نمازی کو چائیے کہ اپنے یقین پر عمل کرے۔ اور ویسے بھی مسلمان کو شبہات کے پیچھے نہیں پڑنا چائیے بلکہ شبہات سے بچنا چائیے۔ اسی لیےفقہ کا قاعدہ ہے کہ یقین شک سےزائل نہیں ہوتا۔ (الاشباہ والنظائر)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو پھر وہ اپنی سرین میں کچھ حرکت محسوس کرے، اور اسے شبہ ہو جائے کہ وضو ٹوٹا یا نہیں، تو جب تک کہ وہ آواز نہ سن لے، یا بو نہ سونگھ لے، نماز نہ توڑے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abbad b. Tamim reported from his uncle that a person made a complaint to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) that he entertained (doubt) as if something had happened to him which had rendered his ablution invalid. He (the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم) said: He should not cease (to pray) unless he hears a sound or perceives a smell (of passing wind).