باب: اگر انسان پہلے حج کا تلبیہ کہے پھر اسے عمرہ بنا دے تو؟
)
Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: A Person Entering Ihram For Hajj And Then Changing It To 'Umrah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1807.
سیدنا ابوذر ؓ اس شخص کے بارے میں کہا کرتے تھے جو حج کی نیت کرے پھر اسے فسخ کر کے عمرہ بنا دے، یہ صرف ان لوگوں کے لیے تھا جو رسول اللہ ﷺ کی معیت میں تھے۔
تشریح:
یہ حضرت ابوذر کا خیال تھا ورنہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان پہلے حج کی نیت سے احرام باندھے اور پھر اسے عمرے میں تبدیل کر لے۔ صحابہ کی ایک کثیر تعداد اس کی قائل ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث موقوف صحيح، ولكن لا حجة فيه؛ لأنه رأي منه مخالف لقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المتقدم (1568) ، وقد سأله سراقة عن هذه العمرة التي أمرهم بفسخها: بل هي للأبد ، وقوله في الحديث الآخر (1571) : قد دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة . ونحوه في حديث جابر الطويل الآتي برقم (1663) ) .إسناده: حدثنا هَنَّاد- يعني: ابن السرِيِّ- عن ابن أبي زائدة: أخبرنا محمد ابن إسحاق عن عبد الرحمن بن الأسود عن سُلَيْمِ بن الأسود.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير أنه لم يخرج لابن إسحاق إلا متابعة؛ لأن في حفظه ضعفاً يسيراً، فهو حسن الحديث إذا صرح بالتحديث، ولكنه هنا قد عنعن؛ إلا أن للحديث طريقاً أخرى كما سأبين.والحديث أخرجه البيهقي (5/22) من طريق المصنف.ثم أخرجه (4/345 و 5/41) من طريقين عن يحيى بن سعيد عن مُرَقِّع الأُسَيِّدِيِّ [وكان مَرْضِياً]عن أبي ذر رضي الله عنه قال:لمٍ يكن لأحد أن يَفْسَخَ حجه إلى عمرة؛ إلا للركب من أصحاب محمد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خاصة.وإسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير مرَقِّع الأُسَيدِيِّ، وهو ثقةكما قال ابن حبان، وقد روى عنه جماعة من الثقات غيرً يحيى بن سعيد،ولذلك لما حكى الحافظ في التهذيب قول ابن حزم فيه: مجهول ! قال: وهو من إطلاقاته المردودة . وبناء على ذلك قال في التقريب : صدوق .ومنه تعلم قول ابن القيم في الزاد (1/288) : ليس ممن يقوم بروايته حجة !وكأنه تبع في ذلك ابن حزم. ولكنه نقل عن الإمام أحمد أنه قال- وقدعُورِضَ بحديثه-: ومن المرقع الأسيدي؟! .وقد تابعه يزيد بن شَريك التَيْمي قال: قال أبو ذر:كانت المتعة في الحج لأصحاب محمد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خاصَّةً.أخرجه مسلم (4/46) ، والنسائي (2/23- 24) ، وابن ماجه (2/231) ،والبيهقي (5/22) من طريق إبراهيم التيمي عن أبيه.
قلت: فهذا شاهد قوي لحديث المرقع الأسيدي، فلا فائدة من الحط عليه لروايته إياه عن أبي ذر. وقد رواه عنه يزيد هذا، وهو ثقة اتفاقاً! وتابعه سليم بن الأسود وهو مثله في الثقة.فلا شك في ثبوت هذا القول عن أبي ذر، ولكنه رأي له، مخالف لأحاديث الفسخ- وما أكثرها-، وقد أشرت في الأعلى إلى بعضها. قال ابن القيم في تهذيب السنن : وهذا الحديث قد تضمن أمرين:أحدهما: فعل الصحابة لها، وهو بلا ريب بأمر النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وهو رواية.والثاني: اختصاصهم بها دون غيرهم، وهذا رأي، فروايته حجة، ورأيه غيرحجة. وقد خالفه فيه عبد الله بن عباس وأبو موسى الأشعري.وقد حمله طائفة على أن الذي اختصوا به هو وجوب الفسخ عليهم حتماً.وأما غيرهم فيستحب له ذلك، هذا إذا كان مراده متعة الفسخ. وإن كان المرادمطلق المتعة؛ فهو خلاف الإجماع والسنة المتواترة. والله أعلم .
قلت: الحمل المذكور بعيد جداً عن بعض ألفاظ الحديث! ففي روايةعبد الوارث بن أبي حنيفة قال: سمعت إبراهيم التيمي يحدث عن أبيه عن أبي ذر قال في متعة الحج:ليست لكم، ولستم منها في شيء؛ إنما كانت... الحديث.أخرجه النسائي بإسناد صحيح، كما قال ابن القيم.فهذا منه صريح في أنه ينفي مطلق المشروعية، وكذلك- هو يعني- مطلق المتعة، وليس متعة الفسخ؛ بدليل رواية عبد الرحمن بن أبي الشعثاء قال:
قلت: لإبراهيم النخعي وإبراهيم التيمي: إني أهِمُ أن أجمع العمرة والحج؟!فقال إبراهيم النخعي: لكنَ أباك لم يكن يهم بذلك! وقال إبراهيم التيمي عن أبيه: أنه مرَّ بأبي ذر رضي الله عنه بالربَذَة، فذكر له ذلك؟! فقال: إنما كانت لناخاصةً دونكم.رواه مسلم والنسائي والبيهقي.(تنبيه) : في زاد المعاد : وفي سنن أبي داود بإسناد صحيح عن إبراهيم التيمي عن أبيه قال: سئل عثمان عن متعة الحج؟ فقال: كانت لنا، ليست لكم !فهذا وهم؛ فليس هذا عند المؤلف ولا سواه من الستة.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابوذر ؓ اس شخص کے بارے میں کہا کرتے تھے جو حج کی نیت کرے پھر اسے فسخ کر کے عمرہ بنا دے، یہ صرف ان لوگوں کے لیے تھا جو رسول اللہ ﷺ کی معیت میں تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حضرت ابوذر کا خیال تھا ورنہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان پہلے حج کی نیت سے احرام باندھے اور پھر اسے عمرے میں تبدیل کر لے۔ صحابہ کی ایک کثیر تعداد اس کی قائل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سلیم بن اسود سے روایت ہے کہ ابوذر ؓ ایسے شخص کے بارے میں جو حج کی نیت کرے پھر اسے عمرے سے فسخ کر دے کہا کرتے تھے: یہ صرف اسی قافلہ کے لیے (مخصوص) تھا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ ابوذر رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال تھا نہ کہ واقعہ، جیسا کہ پچھلی حدیثوں سے واضح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Dharr (RA) used to say about a person who makes the intention of Hajj but he repeal it for the ‘Umrah (that will not be valid). This cancellation of hajj for ‘Umrah was specially meant for the people who accompanied the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم).