Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: A Person Performing Hajj On Behalf Of Another)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1811.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو سنا کہ وہ کہہ رہا تھا «لبيك عن شبرمة» ”میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں۔“ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ” شبرمہ کون ہے؟“ اس نے کہا کہ میرا بھائی ہے یا قریبی ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تم نے اپنی طرف سے حج کر لیا ہے؟“ اس نے کہا، نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(پہلے) اپنی طرف سے حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔“
تشریح:
(1) [شبرمه] شین اور را کے ضمہ کے ساتھ جب کہ باء ساکن اور میم مفتوح ہے۔ (2) حج بدل میں حاجی پہلےاپنا حج کر چکا ہو تو پھر وہ دوسرے کی طرف سے حج کر سکتا ہے ورنہ نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وكذلك قال ابن الملقِّنِ،وصححه ابن الجارود وابن حبان والبيهقي والضياء المقدسي والعسقلاني) .إسناده: حدثنا إسحاق بن إسماعيل وهَنَّاد بن السَّرِيِّ- المعنى واحد-؛ قال إسحاق: ثنا عَبْدَة بن سليمان عن ابن أبي عَروبة عن قتادة عن عَزْرَةَ عن سعيد بن جبير عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير هناد بن السري؛ فإنه على شرط مسلم.وقرينه إسحاق بن إسماعيل- وهو الطالْقَانِيُ- ثقة، وقد توبعا.والحديث أخرجه ابن ماجه وابن الجارود وابن حبان وغيرهم من طرق أخرى عن عبدة بن سليمان... به.وقد صححه من ذكرنا في الأعلى من الأئمة، وقد خرجت الحديث في الإرواء (994) ، وذكرت فيه أقوال المصححين، وأشرت إلى ما أُعِل به مما لايقدح في صحته، والشاهد المرسل الذي قوّاه الحافظ به.واستدركت عليه أنه ثبت موصولاً من طريق عطاء عن ابن عباس مرفوعاً؛ وسنده صحيح. وهو مما أغفلته كتب التخريج التي وقفت عليها. والحمد لله على توفيقه.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو سنا کہ وہ کہہ رہا تھا «لبيك عن شبرمة» ”میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں۔“ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ” شبرمہ کون ہے؟“ اس نے کہا کہ میرا بھائی ہے یا قریبی ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تم نے اپنی طرف سے حج کر لیا ہے؟“ اس نے کہا، نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(پہلے) اپنی طرف سے حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) [شبرمه] شین اور را کے ضمہ کے ساتھ جب کہ باء ساکن اور میم مفتوح ہے۔ (2) حج بدل میں حاجی پہلےاپنا حج کر چکا ہو تو پھر وہ دوسرے کی طرف سے حج کر سکتا ہے ورنہ نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو کہتے سنا: «لبيك عن شبرمة» ”حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے۔“ آپ ﷺ نے دریافت کیا: ”شبرمہ کون ہے؟“ اس نے کہا: میرا بھائی یا میرا رشتے دار ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: ”تم نے اپنا حج کر لیا ہے؟“ اس نے جواب دیا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”پہلے اپنا حج کرو پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: بعض علماء کے نزدیک حج بدل (دوسرے کی طرف سے حج کرنا) درست ہے، خواہ اپنی طرف سے حج نہ کر سکا ہو، بعض ائمہ کے نزدیک اگر وہ اپنی طرف سے حج نہیں کر سکا ہے تو دوسرے کی طرف سے حج بدل درست نہ ہو گا، اور یہی صحیح مذہب ہے، اس لئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جو «لبيك عن شبرمة» کہہ رہا تھا حکم دیا: «حج عن نفسك ثم حج عن شبرمة»: ’’پہلے اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرو۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) heard a man say: Labbayk (always ready to obey) on behalf of Shubrumah. He asked: Who is Shubrumah? He replied: A brother or relative of mine. He asked: Have you performed hajj on your own behalf? He said: No. He said: perform hajj on your own behalf, then perform it on behalf of Shubrumah.