Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: The Procedure Of The Talbiyah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1813.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا اور تلبیہ پڑھا۔ اور سیدنا ابن عمر ؓ کی روایت کی مانند تلبیہ کے الفاظ بیان کیے۔ کہا کہ لوگ «ذا المعارج» اور اس طرح الفاظ زیادہ کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ انہیں سنتے اور انہیں کچھ نہ کہتے تھے («ذا المعارج» یعنی اے اللہ بلندیوں والے اور انعامات کے مالک!)۔
تشریح:
(1) حج اور عمرہ میں تلبیہ کہنا سنت مؤکدہ ہے اگر کوئی اسے ترک کر دے گا تو سنت کے اجر و ثواب سےمحروم رہے گا۔ جبکہ بعض ائمہ اسے واجب کہتے ہیں۔ اسی لیے اس کے ترک پر ان کےنزدیک دم (قربانی) واجب ہے۔ تاہم یہ دوسرا موقف صحیح نہیں لگتا اس لیے کہ ترک تلبیہ سے کسی رکن کا ترک لازم نہیں آتا اس لیے اوکان حج کی ادائیگی تلبیے کے قائم مقام ہو جائے گی۔ تلبیہ کے الفاظ میں افضل یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظ ہی پر اکتفا واقتصار کیا جائے کیونکہ آپ نے انہی بپر مداومت اختیار فرمائی ہے۔ تاہم اگر کوئی (صحیح المعنی الفاظ کا) اضافہ کرے تو بھی مباح ہے کیونکہ نبی ﷺ نے بعض صحابہ کو مختلف الفاظ سے تلبیہ پکارتے سنا تو آپ خاموش رہے اور انکار نہیں فرمایا۔ (عون المعبود) (2) یہ جلیل الشان کلمہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی تمام انواع پر مشتمل ہے۔ یعنی توحید الوہیت توحید ربوبیت اورتوحید اسماء و صفات۔ اور بندہ اس کے تکرار سےاپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وصححه ابن الجارود) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا يحيى بن سعيد: ثنا جعفر: ثنا أبي عن جابر بن عبد الله.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير جعفر-وهو ابن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب الهاشمي أبو عبد الله،المعروف بالصادق-، فهو من رجال مسلم وحده.والحديث أخرجه أحمد في المسند (3/320- 321) ... بهذا الإسناد عن جابر... به.وهو عنده قطعة من حديثه الطويل في الحج، وسيأتي عند المصنف برقم (1663) من طريق حاتم بن إسماعيل: ثنا جعفر بن محمد... به مطولاً، وفيه هذه القطعة نحوه.وكذلك أخرجه مسلم وغيره، ويأتي تخريجه هناك.والحديث أخرجه ابن الجارود (465) ، والبيهقي (5/45) من طريقين آخرين عن يحيى بن سعيد... به.وعزاه المنذري في مختصره لابن ماجه!وهو وهم؛ فإنه إنما أخرجه (2/252) بنحو الرواية الآتية:
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا اور تلبیہ پڑھا۔ اور سیدنا ابن عمر ؓ کی روایت کی مانند تلبیہ کے الفاظ بیان کیے۔ کہا کہ لوگ «ذا المعارج» اور اس طرح الفاظ زیادہ کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ انہیں سنتے اور انہیں کچھ نہ کہتے تھے («ذا المعارج» یعنی اے اللہ بلندیوں والے اور انعامات کے مالک!)۔
حدیث حاشیہ:
(1) حج اور عمرہ میں تلبیہ کہنا سنت مؤکدہ ہے اگر کوئی اسے ترک کر دے گا تو سنت کے اجر و ثواب سےمحروم رہے گا۔ جبکہ بعض ائمہ اسے واجب کہتے ہیں۔ اسی لیے اس کے ترک پر ان کےنزدیک دم (قربانی) واجب ہے۔ تاہم یہ دوسرا موقف صحیح نہیں لگتا اس لیے کہ ترک تلبیہ سے کسی رکن کا ترک لازم نہیں آتا اس لیے اوکان حج کی ادائیگی تلبیے کے قائم مقام ہو جائے گی۔ تلبیہ کے الفاظ میں افضل یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظ ہی پر اکتفا واقتصار کیا جائے کیونکہ آپ نے انہی بپر مداومت اختیار فرمائی ہے۔ تاہم اگر کوئی (صحیح المعنی الفاظ کا) اضافہ کرے تو بھی مباح ہے کیونکہ نبی ﷺ نے بعض صحابہ کو مختلف الفاظ سے تلبیہ پکارتے سنا تو آپ خاموش رہے اور انکار نہیں فرمایا۔ (عون المعبود) (2) یہ جلیل الشان کلمہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی تمام انواع پر مشتمل ہے۔ یعنی توحید الوہیت توحید ربوبیت اورتوحید اسماء و صفات۔ اور بندہ اس کے تکرار سےاپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا، پھر انہوں نے تلبیہ کا اسی طرح ذکر کیا جیسے ابن عمر کی حدیث میں ہے اور کہا: لوگ (اپنی طرف سے اللہ کی تعریف میں) «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم ﷺ سنتے تھے لیکن آپ ان سے کچھ نہیں فرماتے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خاموشی اور سکوت تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافہ کے جواز کی دلیل ہے، اگرچہ افضل وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ثابت ہے اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir ibn 'Abdullah (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) raised his voice in talbiyah; he then mentioned the wordings of talbiyah like the tradition narrated by Ibn 'Umar (RA). The people used to add the words dhal-ma'arij (the Possessor of ladders) and similar other words (to talbiyah) while the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) heard them utter these words, but he did not say anything to them.