Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding A Woman In Ihram Covering Her Face)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1833.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام سے ہوتی تھیں اور قافلے والے ہمارے سامنے سے گزرتے تو ہم اپنے پردے کی چادر کو سر سے چہرے پر لٹکا لیتیں۔ جب وہ گزر جاتے تو چہرہ کھول لیتی تھیں۔
تشریح:
یہ سند اگرچہ قدرے ضعیف ہے مگر دیگر اثار سے مسئلہ اسی طرح ہے کہ عورت حالت احرام میں بھی اجنبیوں سے پردہ کرے۔ موطا امام مالک میں ہے۔ فاطمہ بنت مندر بیان کرتی ہیں۔ کہ ہم حالت احرام میں اپنے چہرے ڈھانپا کرتی تھیں۔ اور اسماء بنت ابی بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ہمارے ساتھ ہوتی تھیں۔ (باب تخمیر المحرم وجھه) نیز (إرواء الغلیل، حدیث: 1023) مگر موجودہ صورت حال پردے کے معاملے میں انتہائی پریشان کن ہے کہ حیاء وشرم گویا اٹھتی جارہی ہے۔ الا ماشاء اللہ مزید تفصیل کےلئے حدیث نمبر 1825) کے فوائد ومسائل ملاحظہ ہوں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناد ضعيف؛ لسوء حفظ يزيد بن أبي زياد، وقال الحافظ: في إسناده ضعف ) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا هشيم: أخبرنا يزيد بن أبي زياد...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير يزيد بن أبي زياد وهو الهاشمي مولاهم، وهو ضعيف لسوء حفظه، ولذلك قال الحافظ في الفتح (3/317) بعد أن عزاه للمصنف: وفي إسناده ضعف .والحديث أخرجه البيهقي (5/48) من طريق المصنف.وهو عند أحمد في المسند (6/30) .وأخرجه ابن ماجه، وابن الجارود، والدارقطني، كلُهم من طريق يزيد بن أبي زياد... به. وهو مخرج في الإرواء (1024) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام سے ہوتی تھیں اور قافلے والے ہمارے سامنے سے گزرتے تو ہم اپنے پردے کی چادر کو سر سے چہرے پر لٹکا لیتیں۔ جب وہ گزر جاتے تو چہرہ کھول لیتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
یہ سند اگرچہ قدرے ضعیف ہے مگر دیگر اثار سے مسئلہ اسی طرح ہے کہ عورت حالت احرام میں بھی اجنبیوں سے پردہ کرے۔ موطا امام مالک میں ہے۔ فاطمہ بنت مندر بیان کرتی ہیں۔ کہ ہم حالت احرام میں اپنے چہرے ڈھانپا کرتی تھیں۔ اور اسماء بنت ابی بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ہمارے ساتھ ہوتی تھیں۔ (باب تخمیر المحرم وجھه) نیز (إرواء الغلیل، حدیث: 1023) مگر موجودہ صورت حال پردے کے معاملے میں انتہائی پریشان کن ہے کہ حیاء وشرم گویا اٹھتی جارہی ہے۔ الا ماشاء اللہ مزید تفصیل کےلئے حدیث نمبر 1825) کے فوائد ومسائل ملاحظہ ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ سوار ہمارے سامنے سے گزرتے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوتے، جب سوار ہمارے سامنے آ جاتے تو ہم اپنے نقاب اپنے سر سے چہرے پر ڈال لیتے اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اسے کھول لیتے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): Riders would pass us when we accompanied the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) while we were in the sacred state (wearing ihram). When they came by us, one of us would let down her outer garment from her head over her face, and when they had passed on, we would uncover our faces.