Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: The Meat Of Game For The Muhrim)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1850.
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا: اے زید بن ارقم! کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک شکار کا عضو ہدیہ دیا گیا تھا تو آپ ﷺ نے اسے قبول نہیں کیا تھا اور فرمایا تھا: ’’ہم احرام میں ہیں؟‘‘ سیدنا زید ؓ نے جواب دیا، ہاں!۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، كما قال الحاكم، ووافقه الذهبي.وأخرجه مسلم من طريق أخرى عنه نحوه) .إسناده: حدثنا أبو سَلَمَة موسى بن إسماعيل: ثنا حماد عن قيس عن عطاء عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ على ضعف في حماد بن سلمة، ولكنه قد توبع كما يأتي.والحديث أخرجه النسائي (2/25) ، والطحاوي (2/387) ، وابن حبان(981) ، والحاكم (1/452) ، وأحمد (4/369 و 371) من طرق أخرى عن حماد... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم ، ووافقه الذهبي.وتابعه ابن جريج: أخبرني الحسن بن مسلم عن طاوس عن ابن عباس عن زيد بن أرقم... نحوه؛ وفيه: قال:أُهدىِ له عَضْوٌ من لحم صيد، فَرَدَّهُ، فقال: إنا لا نأكله؛ إنّا حُرُمٌ .أخرجه مسلم (4/14) ، والنسائي، والطحاوي، والبيهقي (5/194) ، وأحمد(4/367 و 374) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
تمہید باب
بحالت احرام خشکی کا شکار کرنا یا شکاری سے تعاون کرنا حرام ہے حتیٰ کہ اس کو اشارہ کرنا بھی جائز نہیں۔ایسے ہی اگر معلوم ہو کہ شکاری نے محرمین ہی کےلئے شکار کیا ہے۔تو انہیں اس کا قبول کرنا یا کھانا بھی جائز نہیں۔لیکن اگر ان کی غرض سے شکار نہ کیا گیا ہو تو اس کا قبول کرلینا اور کھا لینا جائز ہے۔اور سمندری شکار میں کسی طرح کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔محرم از خود شکار کرے یا کسی سے تعاون کرے۔بلاشبہ جائز ہے۔قرآن مجید کی سورۃ مائدہ کی پہلی اور دوسری آیت کےعلاوہ آیت نمبر 95۔اور 96 میں بھی یہ مسئلہ زکر ہوا ہے۔ارشاد باری ہے۔)أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا)(المائدۃ۔96)''تمہارے لئے سمندر کا شکار اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے۔کیونکہ ا س میںتمہارا فائدہ ہے۔اورمسافروں کا بھلا اور خشکی کا شکار تم پر حرام ہے۔جب تک کہ تم احرام میں ہو''
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا: اے زید بن ارقم! کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک شکار کا عضو ہدیہ دیا گیا تھا تو آپ ﷺ نے اسے قبول نہیں کیا تھا اور فرمایا تھا: ’’ہم احرام میں ہیں؟‘‘ سیدنا زید ؓ نے جواب دیا، ہاں!۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے زید بن ارقم ؓ سے کہا: زید بن ارقم! کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو شکار کا دست ہدیہ دیا گیا تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا، اور فرمایا: ”ہم احرام باندھے ہوئے ہیں؟“ انہوں نے جواب دیا: ہاں (معلوم ہے)۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas (RA) said: Zaid bin ‘Arqam do you know that the limb of a game was presented to the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) but he did not accept it. He said “We are wearing ihram”. He replied, Yes.