Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: The Meat Of Game For The Muhrim)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1851.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہتے تھے: ”خشکی کا شکار تمہارے لیے حلال ہے بشرطیکہ تم نے اس کو شکار نہ کیا ہو یا تمہارے لیے شکار نہ کیا گیا ہو۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ سے دو حدیثیں ایک دوسری کے برخلاف ملیں تو وہ حدیث لی جائے جس پر آپ ﷺ کے صحابہ نے عمل کیا ہو۔
تشریح:
یہ حدیث سندا تو صحیح نہیں۔ مگر معنا درست ہے۔ اور مسئلہ یہی ہے۔ جیسے کہ صحیح بخاری میں ہے۔ (کتاب جزاء الصید، أحادیث:1825تا1821) اوراگلی حدیث میں بھی مروی ہے۔ 2۔ امام ابودائود رحمۃ اللہ علیہ کا بیان جب دو حدیثیں ایک دوسرے کے برخلاف ملیں الخ معلوم ہونا چاہیے کہ صحیح الاسناد احادیث میں جہاں تعارض محسوس ہوتا ہے ان میں یقیناً پہلے کا قول وعمل مسنوخ اور بعد والا ناسخ ہوتا ہے۔ اور تواریخ کا علم نہ ہوسکے۔ تو دیگر وجو ہ ترجیحات کے ذریعے سے ایک کو راحج اور دوسرے کو مرجوح قرار دیا جائے گا۔ اس قسم کی تحقیقات علمائے راسخین اور ان کی موثوق تالیفات ہی سے مل سکتی ہیں۔ اس موضوع پر علمائے محدثین نے بہت محنت کی ہے۔ مثلاً کتاب الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ (للحاذی)۔ الناسخ والمنسوخ (امام احمدؒ) تجرید الاحادیث المنسوخۃ ابن الجوزی۔ بظاہر مختلف المعانی احادیث کے سلسلے میں یہ کتب قابل مراجعہ ہیں۔ اختلاف الحدیث (امام شافعی ؒ) تاویل مختلف الحدیث (ابن قتیبہ عبد اللہ بن مسلم ؒ اور۔ مشکل الاثار (ابو جعفر احمد بن سلامہ الطحاوی) 3۔ امام الائمہ ابو بکر بن خزیمہ ؒ فر مایا کرتے تھے۔ کہ جس شخص کو دو صحیح حدیثوں میں تعارض اور تضاد محسوس ہوتا ہو وہ ہمارے پاس لے آئے ہم ان میں تطبیق دے دیں گے۔ اللہ اکبر! یہ ہیں ہمارے اسلاف محدثین۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ لانقطاعه، قال الترمذي: والمطلب لا نعرف له سماعاً عن جابر . ثم هو إلى ذلك كثير التدليس، وقد عنعنه، وهذه هي العلةالحقيقية، وقد أُعل بغيرها) .إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد: ثنا يعقوب- يعني- الإسكندراني عن عمرو عن المطلب... به.قال أبو داود: إذا تنازع الخبران عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُنظر بما أخذ أصحابه .
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير المطلب- وهوابن عبد الله بن المطلب ابن حنطب الخزومي- وهو صدوق؛ لكنه كثير التدليس والأرسال، كما قال الحافظ، وقد عنعنه- كما ترى-.وقد أعل بعلل أخرى، والعلة الحقيقية ما أشرنا إليه من التدليس.والحديث أخرجه الترمذي (846) ، والنسائي (2/26) ، والطحاوي (1/388) وابن الجارود في المنتقى (437) ، وابن حبان (989) ، والحاكم (1/452) ،والبيهقي (5/190) ، وأحمد (3/362) كلُهم عن يعقوب بن عبد الرحمن الإسكندراني... به. وقال الترمذي: هذا حديث مفسر، والمطلب لا نعرف له سماعاً عن جابر . وقال النسائي: عمرو بن أبي عمرو ليس بالقوي في الحديث، وإن كان قد روى عنه مالك .
قلت: إنما العلة التدليس. وفي مقابل ذاك الإعلال قول الحاكم والذهبي: صحيح على شرط الشيخين !!
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
تمہید باب
بحالت احرام خشکی کا شکار کرنا یا شکاری سے تعاون کرنا حرام ہے حتیٰ کہ اس کو اشارہ کرنا بھی جائز نہیں۔ایسے ہی اگر معلوم ہو کہ شکاری نے محرمین ہی کےلئے شکار کیا ہے۔تو انہیں اس کا قبول کرنا یا کھانا بھی جائز نہیں۔لیکن اگر ان کی غرض سے شکار نہ کیا گیا ہو تو اس کا قبول کرلینا اور کھا لینا جائز ہے۔اور سمندری شکار میں کسی طرح کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔محرم از خود شکار کرے یا کسی سے تعاون کرے۔بلاشبہ جائز ہے۔قرآن مجید کی سورۃ مائدہ کی پہلی اور دوسری آیت کےعلاوہ آیت نمبر 95۔اور 96 میں بھی یہ مسئلہ زکر ہوا ہے۔ارشاد باری ہے۔)أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا)(المائدۃ۔96)''تمہارے لئے سمندر کا شکار اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے۔کیونکہ ا س میںتمہارا فائدہ ہے۔اورمسافروں کا بھلا اور خشکی کا شکار تم پر حرام ہے۔جب تک کہ تم احرام میں ہو''
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہتے تھے: ”خشکی کا شکار تمہارے لیے حلال ہے بشرطیکہ تم نے اس کو شکار نہ کیا ہو یا تمہارے لیے شکار نہ کیا گیا ہو۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ سے دو حدیثیں ایک دوسری کے برخلاف ملیں تو وہ حدیث لی جائے جس پر آپ ﷺ کے صحابہ نے عمل کیا ہو۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث سندا تو صحیح نہیں۔ مگر معنا درست ہے۔ اور مسئلہ یہی ہے۔ جیسے کہ صحیح بخاری میں ہے۔ (کتاب جزاء الصید، أحادیث:1825تا1821) اوراگلی حدیث میں بھی مروی ہے۔ 2۔ امام ابودائود رحمۃ اللہ علیہ کا بیان جب دو حدیثیں ایک دوسرے کے برخلاف ملیں الخ معلوم ہونا چاہیے کہ صحیح الاسناد احادیث میں جہاں تعارض محسوس ہوتا ہے ان میں یقیناً پہلے کا قول وعمل مسنوخ اور بعد والا ناسخ ہوتا ہے۔ اور تواریخ کا علم نہ ہوسکے۔ تو دیگر وجو ہ ترجیحات کے ذریعے سے ایک کو راحج اور دوسرے کو مرجوح قرار دیا جائے گا۔ اس قسم کی تحقیقات علمائے راسخین اور ان کی موثوق تالیفات ہی سے مل سکتی ہیں۔ اس موضوع پر علمائے محدثین نے بہت محنت کی ہے۔ مثلاً کتاب الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ (للحاذی)۔ الناسخ والمنسوخ (امام احمدؒ) تجرید الاحادیث المنسوخۃ ابن الجوزی۔ بظاہر مختلف المعانی احادیث کے سلسلے میں یہ کتب قابل مراجعہ ہیں۔ اختلاف الحدیث (امام شافعی ؒ) تاویل مختلف الحدیث (ابن قتیبہ عبد اللہ بن مسلم ؒ اور۔ مشکل الاثار (ابو جعفر احمد بن سلامہ الطحاوی) 3۔ امام الائمہ ابو بکر بن خزیمہ ؒ فر مایا کرتے تھے۔ کہ جس شخص کو دو صحیح حدیثوں میں تعارض اور تضاد محسوس ہوتا ہو وہ ہمارے پاس لے آئے ہم ان میں تطبیق دے دیں گے۔ اللہ اکبر! یہ ہیں ہمارے اسلاف محدثین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”خشکی کا شکار تمہارے لیے اس وقت حلال ہے جب تم خود اس کا شکار نہ کرو اور نہ تمہارے لیے اس کا شکار کیا جائے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: جب دو روایتیں متعارض ہوں تو دیکھا جائے گا کہ صحابہ کرام ؓ کا عمل کس کے موافق ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir ibn 'Abdullah (RA): I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: The game of the land is lawful for you (when you are wearing ihram) as long as you do not hunt it or have it hunted on your behalf. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: When two traditions from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) conflict, one should see which of them was followed by his Companions.