Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Being Prevented From Completing Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1862.
سیدنا حجاج بن عمرو انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا لنگڑا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا۔ (یعنی اس کے لیے حلال ہو جانا مباح ہے اور آئندہ کے لیے اس پر حج ہے۔“ جناب عکرمہ کہتے ہیں میں نے سیدنا ابن عباس ؓ اور ابوہریرہ ؓ سے اس بارے میں پوچھا، ان دونوں نے (حجاج کی روایت کی) تصدیق کی۔
تشریح:
آئندہ حج کے لئے آنا فرض کی قضا تو فرض ہے۔ اگر یہ حج نفل ہوتو بھی راحج یہی ہے کہ دوبارہ آئے اور یہی حکم عمرہ کا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ احکام استطاعت اوروسائل ہی پر مبنی ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت. إسناده صحيح، وصححه الترمذي والحاكم والذهبي) .إسناده: حدثنا مسدد: ثنا يحيى بن حَجَّاج الصَّوَّافُ: حدثني يحيى بن أبي كثير عن عكرمة قال: سمعت الحجاج بن عمرو الأنصاري.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ غير الحجاج بن عمرو الأنصاري، وله صحبة، وقد صرح بسماعه لهذا الحديث من رسول الله في بعض طرقه، كما يأتي.والحديث أخرجه الترمذي (940) ، والنسائي (2/29) ، والدارمي (2/61) ،وابن ماجه (2/259) ، والطحاوي (1/431) ، والحاكم (1/482- 483) ، والبيهقي (5/220) ، وأحمد (3/450) من طرق أخرى عن الصواف... به. وهو عند ابن ماجه والحاكم والبيهقي وأحمد؛ مسلسل بالتحديث من الصواف إلى الحجاج، وصرح هذا بالسماع من النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وهذا التصريح: عند النسائي أيضاً، والطحاوي وأحمد. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وقال الحاكم: صحيح على شرط البخاري ، ووافقه الذهبي.وخالفه معمر- عند الترمذي وابن ماجه والحاكم والبيهقي-، ومعاوية بن سلام- عند الطحاوي- فقالا: عن يحيى بن أبي كثير عن عكرمة عن عبد الله بن رافع عن الحجاج بن عمرو... به، زاد في إسناده: عبد الله بن رافع. وقال الترمذي: وسمعت محمداً يقول: رواية معمر ومعاوية بن سلام أصح . قال الترمذي: وحجاج الصواف ثقة حافظ عند أهل الحديث .وأقول: كأن الترمذي يشير إلى صحة الروايتين. وهو كذلك عندي؛ لأن روايةالصواف متصلة، ورواية الآخرين كأنها من المزيد فيما اتصل من الأسانيد. والله أعلم.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا حجاج بن عمرو انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا لنگڑا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا۔ (یعنی اس کے لیے حلال ہو جانا مباح ہے اور آئندہ کے لیے اس پر حج ہے۔“ جناب عکرمہ کہتے ہیں میں نے سیدنا ابن عباس ؓ اور ابوہریرہ ؓ سے اس بارے میں پوچھا، ان دونوں نے (حجاج کی روایت کی) تصدیق کی۔
حدیث حاشیہ:
آئندہ حج کے لئے آنا فرض کی قضا تو فرض ہے۔ اگر یہ حج نفل ہوتو بھی راحج یہی ہے کہ دوبارہ آئے اور یہی حکم عمرہ کا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ احکام استطاعت اوروسائل ہی پر مبنی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حجاج بن عمرو انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کی ہڈی ٹوٹ جائے، یا لنگڑا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا، اب اس پر اگلے سال حج ہو گا۱؎۔“ عکرمہ کہتے ہیں: میں نے ابن عباس ؓ اور ابوہریرہ ؓ سے اس کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے کہا: انہوں نے سچ کہا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج و عمرہ کی نیت سے گھر سے نکلنے والے کو اگر اچانک کوئی مرض لاحق ہو جائے تو وہ وہیں پر حلال ہو جائے گا، لیکن آئندہ سال اس کو حج کرنا ہو گا، اگر یہ حج فرض حج ہو تو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al Hajjaj bin ‘Amr Al Ansari reported the Apostle of Allah(صلی اللہ علیہ وسلم) as saying “If anyone breaks (a bone or leg) or becomes lame, he has come out of the sacred state and must perform Hajj the following year”. ‘Ikrimah (RA) said: I asked Ibn ‘Abbas and Abu Hurairah (RA) about this. They replied He spoke the truth.