Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: On Kissing The Black Stone)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1873.
سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دیا، پھر کہا: بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہی ہے، نفع دے سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ انہوں نے تجھے بوسہ دیا تھا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺکے طریق (یعنی سنت مطہرہ) کا اتباع ہر حال میں مشروع اور واجب ہے۔ خواہ اس کے اسباب اور علل معلوم ہوں یا نہ ہوں۔ اسے کسی علت یا سبب پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا اگر کوئی حکمت سمجھ میں آجائے تو فبہا ورنہ اس پرعمل بہرحال لازم ہے۔ 2۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ توضیح ان نو مسلم لوگوں کےلئے تھی۔ جن کو یہ وہم ہوسکتا تھا کہ شاید یہ پتھر کوئی موثر پتھر ہے۔ اس لئے اس کو چوما جارہا ہے۔ 3۔ یہ حدیث حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اتباع امام اعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر شدید حریص ہونے کی واضح دلیل ہے۔ 4۔ کوئی بھی پتھر شجر اور قبر وغیرہ کسی قسم کے نفع یا نقصان کا ہرگز ہرگز کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ 5۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اپنے ایمان اور عقیدہ توحید اور جذبہ اتباع سنت میں از حد کامل تھے۔ 6۔ شرعی دلیل کے بغیر کسی چیز کو احتراماً چومنا چاٹنا مکروہ ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه البخاري بإسنادالمصنف، وهو ومسلم من طرق أخرى. وصححه الترمذي وابن الجارود) .إسناده: حدثنا محمد بن كثير: أخبرنا سفيان عن الأعمش عن إبراهيم عن عابس بن ربيعة عن عمر.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين ، وقد أخرجاه كما يأتي.والحديث أخرجه البخاري (3/362) ... بإسناد المصنف.وأخرجه البيهقي (5/74) من طريق أخرى عن شيخهما. وأخرجه مسلم (4/67) ، والترمذي (860) - وقال: حديث حسن صحيح -،والنسائي (2/37- 38) ، وأحمد (1/16 و 26 و 46) من طرق أخرى عن الأعمش... به.ثم أخرجه البخاري (3/370 و 373) ، ومسلم والنسائي والدارمي (2/52- 53) ،وابن ماجه (2/221) ، وابن الجارود (451- 452) ، وأحمد (1/21 و 34 و 39 و 50و 53 و 54) ، والحميدي (9) من طرق أخرى عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دیا، پھر کہا: بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہی ہے، نفع دے سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ انہوں نے تجھے بوسہ دیا تھا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺکے طریق (یعنی سنت مطہرہ) کا اتباع ہر حال میں مشروع اور واجب ہے۔ خواہ اس کے اسباب اور علل معلوم ہوں یا نہ ہوں۔ اسے کسی علت یا سبب پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا اگر کوئی حکمت سمجھ میں آجائے تو فبہا ورنہ اس پرعمل بہرحال لازم ہے۔ 2۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ توضیح ان نو مسلم لوگوں کےلئے تھی۔ جن کو یہ وہم ہوسکتا تھا کہ شاید یہ پتھر کوئی موثر پتھر ہے۔ اس لئے اس کو چوما جارہا ہے۔ 3۔ یہ حدیث حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اتباع امام اعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر شدید حریص ہونے کی واضح دلیل ہے۔ 4۔ کوئی بھی پتھر شجر اور قبر وغیرہ کسی قسم کے نفع یا نقصان کا ہرگز ہرگز کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ 5۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اپنے ایمان اور عقیدہ توحید اور جذبہ اتباع سنت میں از حد کامل تھے۔ 6۔ شرعی دلیل کے بغیر کسی چیز کو احتراماً چومنا چاٹنا مکروہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے چوما، اور کہا: میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: حجر اسود کے سلسلے میں طواف کرنے والے شخص کو اختیار ہے کہ تین باتوں چومنا، چھونا ہاتھ یا چھڑی سے، ( اشارہ کرنا) میں سے جو ممکن ہو کرلے ہر ایک کافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abis bin Rabi’ah said on the authority of ‘Umar He(‘Umar) came to the (Black) Stone and said “ I know for sure that you are a stone which can neither benefit nor injure and had I not seen the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) kissing you, I would not have kissed you”.