Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Ar-Raml (Walking Briskly During Tawaf))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1887.
جناب اسلم عدوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے سنا فرماتے تھے: آج یہ کندھے ہلا ہلا کر دوڑنا اور ان کا ننگا کرنا کیوں ہے؟ (اس کی کوئی ضرورت تو نہیں ہے) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو قوی اور مضبوط بنا دیا ہے اور کفر و کفار کو یہاں سے نکال باہر کیا ہے۔ اس کے باوجود ہم یہ عمل نہیں چھوڑ سکتے جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں کیا کرتے تھے۔
تشریح:
اس حدیث سے جناب امیر المومنین خلیفہ ثانی عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم منکبت اور سنت رسول ﷺکے ساتھ والہانہ لگائواورعقیدت ثابت ہوتی ہے۔ وللہ درة 2۔ بعض اعمال شرعیہ کی اصل بنا خواہ کوئی وقتی اسباب بھی ہوں۔ مگر چونکہ رسول اللہ ﷺنے تعلیم فرمائی ہے۔ اس لئے ہمیں ان کا کرنا لازم ہے۔ خواہ اب وہ اسباب موجود ہوں یانہ ہوں۔مثلا یہی رمل کا عمل یا جمعہ کے روز کاغسل ہے۔ کے ابتداء محض نظافت کی بناء پر مشروع کیا گیا تھا لیکن اب واجب یامستحب ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن صحيح، وهو على شرط مسلم، وصححه الحاكم والذهبي على شرطه. وأخرجه البخاري بنحوه) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا عبد الملك بن عمرو: ثنا هشام بن سعدعن زيد بن أسلم عن أبيه قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول...
قلت: وهذا إسناد حسن، ورجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير هشام بن سعد، فهو من رجال مسلم، وفيه كلام يسير من قبل حفظه.والحديث في مسند أحمد (1/45) ... بهذا الإسناد.وأخرجه ابن ماجه (2/223) ، والحاكم (1/454) ، وعنه البيهقي (5/79) من طريقين آخرين عن هشام بن سعد... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم ، ووافقه الذهبي.وهو كما قالا؛ على ما عرفت من حال هشام بن سعد.وقد خالفه محمد بن جعفر فقال: أخبرني زيد بن أسلم: أن عمر بن الخطاب قال... فذكره نحوه.أخرجه البخاري (3/370) .وزيد بن أسلم لم يسمع من عمر، فاستغربت إخراج البخاري إياه! وزادني استغراباً أن الحافظ لم يتكلم عليه بشيء، فرجعت إلى نسخة أخرى من البخاري ؛ وإذا فيها زيادة: عن أبيه.فاتصل الإسناد من طريق محمد بن جعفر، وتبين أنه متابع لهشام، وليس بمخالف. والحمد لله على توفيقه.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
جناب اسلم عدوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے سنا فرماتے تھے: آج یہ کندھے ہلا ہلا کر دوڑنا اور ان کا ننگا کرنا کیوں ہے؟ (اس کی کوئی ضرورت تو نہیں ہے) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو قوی اور مضبوط بنا دیا ہے اور کفر و کفار کو یہاں سے نکال باہر کیا ہے۔ اس کے باوجود ہم یہ عمل نہیں چھوڑ سکتے جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جناب امیر المومنین خلیفہ ثانی عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم منکبت اور سنت رسول ﷺکے ساتھ والہانہ لگائواورعقیدت ثابت ہوتی ہے۔ وللہ درة 2۔ بعض اعمال شرعیہ کی اصل بنا خواہ کوئی وقتی اسباب بھی ہوں۔ مگر چونکہ رسول اللہ ﷺنے تعلیم فرمائی ہے۔ اس لئے ہمیں ان کا کرنا لازم ہے۔ خواہ اب وہ اسباب موجود ہوں یانہ ہوں۔مثلا یہی رمل کا عمل یا جمعہ کے روز کاغسل ہے۔ کے ابتداء محض نظافت کی بناء پر مشروع کیا گیا تھا لیکن اب واجب یامستحب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ کو کہتے سنا: اب رمل اور مونڈھے کھولنے کی کیا ضرورت ہے؟ اب تو اللہ نے اسلام کو مضبوط کر دیا ہے اور کفر اور اہل کفر کا خاتمہ کر دیا ہے، اس کے باوجود ہم ان باتوں کو نہیں چھوڑیں گے جو رسول اللہ ﷺ کے وقت میں کیا کرتے تھے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: معلوم ہوا کہ شرع کی جس بات کی علت و حکمت سمجھ میں نہ آئے اس کو علی حالہ چھوڑ دینا چاہئے، کیونکہ ایسی صورت میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ یہ اللہ کے رسول کی اتباع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Aslam said: I heard 'Umar (RA) ibn al-Khattab say: What is the need of walking proudly (ramal) and moving the shoulders (while going round the Ka'bah)? Allah has now strengthened Islam and obliterated disbelief and the infidels. In spite of that we shall not forsake anything that we used to do during the time of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم).