Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding Multazam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1898.
سیدنا عبدالرحمٰن بن صفوان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو میں نے کہا: میں اپنے کپڑے ضرور پہنوں گا، میرا گھر راستے ہی پر تھا اور بالضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کیسے کرتے ہیں۔ چنانچہ میں چلا اور نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ کعبہ کے اندر سے نکل چکے تھے اور دروازے سے حطیم تک بیت اللہ کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے رخسار کعبے کے ساتھ لگائے ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان میں تھے۔
تشریح:
بیت اللہ کے دروازے اور حجر اسود کے درمیان بیت اللہ کی دیوار سے چمٹنے کی جگہ کو ملتزم کہتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ لضعف يزيد بن أبي زياد- وهو الهاشمي مولاهم-،قال المنذري: لا يحتج به ) .إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا جرير بن عبد الحميد عن يزيد بن أبي زياد....
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات؛ غير يزيد بن أبي زياد، وهوضعيف لسوء حفظه، وقال المنذري: لا يحتج به .والحديث أخرجه البيهقي (5/92) من طريق المصنف.وأخرجه أحمد (3/431) : ثنا أحمد ين الحجاج: أنا جرير... به.
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
1900
٢
ترقيم محي الدين (المكتبة الشاملة)
ترقیم محی الدین (مکتبہ شاملہ)
1898
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1622
٤
ترقيم محي الدين (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم محی الدین (کتب تسعہ پروگرام)
1898
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1894
٧
ترقيم المكتبة العصرية (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا عبدالرحمٰن بن صفوان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو میں نے کہا: میں اپنے کپڑے ضرور پہنوں گا، میرا گھر راستے ہی پر تھا اور بالضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کیسے کرتے ہیں۔ چنانچہ میں چلا اور نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ کعبہ کے اندر سے نکل چکے تھے اور دروازے سے حطیم تک بیت اللہ کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے رخسار کعبے کے ساتھ لگائے ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان میں تھے۔
حدیث حاشیہ:
بیت اللہ کے دروازے اور حجر اسود کے درمیان بیت اللہ کی دیوار سے چمٹنے کی جگہ کو ملتزم کہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن صفوان ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کیا تو میں نے کہا: میں اپنے کپڑے پہنوں گا (میرا گھر راستے میں تھا) پھر میں دیکھوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے ہیں، تو میں گیا تو نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ کعبۃ اللہ کے اندر سے نکل چکے ہیں اور سب لوگ بیت اللہ کے دروازے سے لے کر حطیم تک کعبہ سے چمٹے ہوئے ہیں، انہوں نے اپنے رخسار بیت اللہ سے لگا دئیے ہیں اور رسول اللہ ﷺ ان سب کے بیچ میں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: ’’ملتزم‘‘: کعبہ کا وہ حصہ جو حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان واقع ہے، لوگ اس سے چمٹ کر دعا مانگتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur Rahman ibn Safwan: When the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) conquered Makkah, I said (to myself): I shall put on my clothes, and my house lay on the way, I shall watch how the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) behaves. So I went out. I saw that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and his Companions had come out from the Ka'bah and embraced the House (the Ka'bah) from its entrance (al-Bab) to al-Hatim. They placed their cheek on the House (the Ka'bah) while the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) was amongst them.