Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding Multazam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1899.
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد (شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو) سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ کے ساتھ طواف کیا۔ جب ہم کعبہ کے پیچھے کی جانب آئے تو میں نے کہا: کیا آپ تعوذ نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا: ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں دوزخ سے۔ پھر چلتے آئے حتیٰ کہ حجر اسود کا استلام کیا اور حجر اسود اور دروازے کے درمیان رک گئے پھر اپنا سینہ اور چہرہ اس پر رکھا، اپنے کلائیوں اور ہاتھوں کو اس طرح کیا اور انہیں خوب پھیلایا۔ (یعنی پھیلا کر دکھایا) پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کرتے دیکھا ہے۔
تشریح:
یہ سند ضعیف ہے۔ مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عروہ بن زبیر اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے صحیح ثابت ہے۔ اس طرح یہ روایت درجہ حسن تک پہنچ جاتی ہے۔ (مناسک الحج والعمرۃ، ص: 22 ازعلامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ ابن الصباح ضعيف) .إسناده: حدثنا مسدد: ثنا عيسى بن يونس: ثنا المثنى بن الصباح...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، المثنى بن الصباح قال الحافظ: ضعيف اختلط باخره . وقال المنذري: ولا يحتج به .والحديث أخرجه البيهقي (5/93) من طريق أخرى عن مسدد... به.وأخرجه عبد الرزاق (9043) ، وعنه ابن ماجه (2/225) عن المثنى... به؛إلا أنه قال: عن أبيه عن جده.ثم رواه عبد الرزاق (9044) ، والبيهقي عن ابن جريج عن عمرو بن وابن جريج مدلس، ولعله تلقاه عن ابن المثنى.
قلت: لكن التزام ما بين الركن والباب المذكور في هذا الحديث، يشهد له الحديث الذي قبله، وأحاديث أخرى موقوفة صحيحة، خرجتها في الصحيحة (2138) وراجع له تلخيص حجة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (الفقرة- 36) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد (شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو) سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ کے ساتھ طواف کیا۔ جب ہم کعبہ کے پیچھے کی جانب آئے تو میں نے کہا: کیا آپ تعوذ نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا: ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں دوزخ سے۔ پھر چلتے آئے حتیٰ کہ حجر اسود کا استلام کیا اور حجر اسود اور دروازے کے درمیان رک گئے پھر اپنا سینہ اور چہرہ اس پر رکھا، اپنے کلائیوں اور ہاتھوں کو اس طرح کیا اور انہیں خوب پھیلایا۔ (یعنی پھیلا کر دکھایا) پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ سند ضعیف ہے۔ مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عروہ بن زبیر اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے صحیح ثابت ہے۔ اس طرح یہ روایت درجہ حسن تک پہنچ جاتی ہے۔ (مناسک الحج والعمرۃ، ص: 22 ازعلامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو ؓ کے ساتھ طواف کیا، جب ہم لوگ کعبہ کے پیچھے آئے تو میں نے کہا: کیا آپ پناہ نہیں مانگیں گے؟ اس پر انہوں نے کہا: ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی آگ سے، پھر وہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، اور حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان کھڑے رہے اور اپنا سینہ، اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں ہتھیلیاں اس طرح رکھیں اور انہوں نے انہیں پوری طرح پھیلایا، پھر بولے: اسی طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملتزم سے چمٹے ہوئے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Amr b. Shu'aib reported on the authority of his father: I went round the Ka'bah along with Abdullah ibn 'Amr. When we came behind the Ka'bah I asked: Do you not seek refuge? He uttered the words: I seek refuge in Allah from the Hell-fire. He then went (farther) and touched the Black Stone, and stood between the corner (Black Stone) and the entrance of the Ka'bah. He then placed his breast, his face, his hands and his palms in this manner, and he spread them, and said: I saw the apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) doing like this.