باب: ایسی انگوٹھی جس میں اللہ کا ذکر کندہ ہو،بیت الخلا میں لے جانا
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Entering The Area In Which One Relieves Oneself With A Ring Upon Which Allah's Name Is Engraved)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
19.
حضرت انس ؓکہتے ہیں: نبی ﷺ جب بیت الخلا جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار لیا کرتے تھے۔ امام ابو داود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے، (یعنی ثقات کی روایت کے خلاف ہے) جبکہ معروف سندیوں ہے: عن ابن جریج، عن زیاد بن سعد، عن زہری، عن انس بن مالک ؓ کہ نبیﷺنے چاندی کی انگوٹھی بنوائی پھر اسے اتار دیا .....مذکورہ بالا پہلی حدیث میں وہم ہمام کو ہوا ہے اور اسے صرف ہمام نےروایت کیا ہے۔
تشریح:
فائدہ: اصل روایت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور پھر اسے اتار دیا۔ گویا بیت الخلا میں جاتے وقت انگوٹھی اتار دینے کی روایت ضعیف ہے۔ تاہم ادب واحترام کا تقاضا ہے کہ ایسی انگوٹھی یا کتاب وغیرہ، جس میں اللہ کا نام ہو، بیت الخلا میں لے جانا مناسب نہیں ہے۔ مذکورہ بالا سند کے منکر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمام نے حدیث کا لفظ روایت کرنے میں ثقات کی مخالفت کی ہے اور اس متن کو ایک دوسری حدیث کے متن کے ساتھ خلط ملط کردیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: كلا؛ بل رواه غيره، وعلته الحقيقية: عنعنة ابن جريج؛ فإنه مدلس. والحديث ضعفه الجمهور) . [إسناده: حدثنا نصر بن علي عن أبي علي الحنفي عن همام]. ومن طريقه: أخرجه النسائي أيضاً (8/178) ، والترمذي (1/325- طبع بولاق) وفي الشمائل أيضاً (1/177) ، وابن ماجه (1/129) ، والحاكم (1/187) ، والبيهقي (1/95) كلهم عن همام بن يحيى عن ابن جريج عن الزهري... به. وهذا إسناد ظاهره الصحة، وقد اغتر به الحاكم؛ فقال: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي! وقال الترمذي: حسن غريب ! وردّه النووي فقال: ضعفه الجمهور، وما ذكره الترمذي مردود عليه، والوهم فيه من همام، ولم يروه إلا همام ! كذا قال؛ وقد تبع فيه أبا داود كما ترى، وليس بصواب؛ فقد تابعه يحيى بن المتوكل: عند الحاكم والبيهقي، ورجاله ثقات؛ كما قال الحافظ في التلخيص (1/473) . وتابعه يحيى بن الضريْسِ: عند الدارقطني، وهو ثقة. فهذا يدفع القول بتفرّد همام به، ويرفع المسؤولية عنه. ولذلك كان أقرب إلى الصواب قول النسائي- فيما نقلوا عنه-: هذا حديث غير محفوظ ؛ لأنه ليس فيه هذا الذي نفاه أبو داود وغيره. وأيضاً لو ثبت أنه لم يروه غير همّام؛ لم يكن الحديث منكراً، ولم يجز أن يقال فيه إلا: إنه غير محفوظ، كما قال النسائي؛ لأن المنكر- فيما اصطلحوا-: هو ما تفرد به ضعيف، وأما إذا كان ثقة؛ فحديثه شاذ لا منكر، وهمام بن يحيى ثقة، احتج به الشيخان وغيرهما! وفي عون المعبود : قال الحافظ ابن حجر: وقد نوزع أبو داود في حكمه على هذا الحديث بالنكارة؛ مع أن رجاله رجال الصحيحين . والجواب: أنه حكم بذلك؛ لأن هماماً تفرد به عن ابن جريج، وهمام- وإن كان من رجال الصحيحين - فإن للشيخين لم يخرجا من رواية همام عن ابن جريج شيئاً؛ لأنه لما أخذ عنه كان بالبصرة، والذين سمعوا من ابن جريج بالبصرة في حديثهم خلل من قبله، والخلل في هذا الحديث من قبل ابن جريج، دلسه عن الزهري بإسقاط للواسطة- وهو زيادابن سعد-، ووهم همام في لفظه على ما جزم أبو داود وغيره، وهذا وجه حكمه عليه بكونه منكراً. قال: وحكم النسائي عليه بكونه غير محفوظ أصوب؛ فإنه شاذ في الحقيقة، إذ المنفرد به من شرط الصحيح؛ لكنه بالمخالفة صار حديثه شاذاً. قال: وأما متابعة يحيى بن المتوكل له عن ابن جريج؛ فقد تفيد، لكن يحيى بن معين قال فيه: لا أعرفه. أي: أنه مجهول العدالة. وذكره ابن حبان في الثقات ، وقال: كان يخطئ. قال: على أن للنظر مجالاً في تصحيح حديث همام؛ لأنه مبني على أن أصله حديث الزهري في اتخاذ الخاتم، ولا مانع أن يكون هذا متناً آخر غير ذلك المتن. وقد مال إلى هذا ابن حبان، فصححهما جميعاً. ولا علة عندي إلا تدليس ابن جريج، فإن وجد عنه التصريح بالسماع؛ فلا مانع من الحكم بصحته. انتهى كلام الحافظ في نكته على ابن الصلاح ... . وقال شيخه الحافظ العراقي في شرح علوم الحديث (89) - وقد ساق الحديث مثالاً للحديث المنكر-: وأما قول الترمذي بعد تخريجه له: (هذا حديث حسن صحيح غريب) ؛ فإنه أجرى حكمه على ظاهر الإسناد، وقول أبي داود والنسائي أولى بالصواب؛ إلا أنه قد ورد من رواية غير همام: رواه الحاكم في المستدرك ، والبيهقي في سننه من رواية يحيى بن المتوكل عن ابن جريج، وصححه الحاكم على شرط الشيخين، وضعفه البيهقي فقال: هذا شاهد ضعيف. وكأن البيهقي ظن [ قلت: وتبعه ابن القيم في تهذيب السن ] أن يحيى بن المتوكل هو أبو عقِيل صاحب بُهيّة، وهو ضعيف عندهم؛ وليس هو به! وإنما هو باهلي، يكنى أبا بكر؛ ذكره ابن حبان في الثقات . ولا يقدح فيه قول ابن معين: لا أعرفه؛ فقد عرفه غيره، وروى عنه نحو من عشرين نفساً، إلا أنه اشتهر تفرد همام به عن ابن جريج. والله أعلم .فثبت مما تقدم أن الحديث عن ابن جريج محفوظ، وأن علته القادحة في صحته هي أن ابن جريج عنعنه ولم يصرح بسماعه له من الزهري. ولذلك علق الحافظ القول بصحة الحديث بما إذا وجد فيه هذا السماع. وأنى يوجد؟! فكل من رواه عنه قال فيه: (عن الزهري) ؛ وقد قيل: إنه لم يسمعه من الزهري، كما في التلخيص . وأما أن ابن جريج مدلس: فهذا مشهور عند القوم، قال الإمام أحمد رحمه الله: إذا قال: أخبرنا وسمعت حسبك به . وقال الذهبي في الميزان : هو أحد الأعلام الثقات، يدلس، وهو في نفسه مجمع على ثقته، قال عبد الله بن أحمد بن حنبل: قال أبي: بعض هذه الأحاديث التي كان يرسلها ابن جريج أحاديث موضوعة، كان ابن جريج لا يبالي من أين يأخذها، يعني: قوله: أخبِرْتُ وحُدِّثْتُ عن فلان .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
حضرت انس ؓکہتے ہیں: نبی ﷺ جب بیت الخلا جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار لیا کرتے تھے۔ امام ابو داود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے، (یعنی ثقات کی روایت کے خلاف ہے) جبکہ معروف سندیوں ہے: عن ابن جریج، عن زیاد بن سعد، عن زہری، عن انس بن مالک ؓ کہ نبیﷺنے چاندی کی انگوٹھی بنوائی پھر اسے اتار دیا .....مذکورہ بالا پہلی حدیث میں وہم ہمام کو ہوا ہے اور اسے صرف ہمام نےروایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: اصل روایت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور پھر اسے اتار دیا۔ گویا بیت الخلا میں جاتے وقت انگوٹھی اتار دینے کی روایت ضعیف ہے۔ تاہم ادب واحترام کا تقاضا ہے کہ ایسی انگوٹھی یا کتاب وغیرہ، جس میں اللہ کا نام ہو، بیت الخلا میں لے جانا مناسب نہیں ہے۔ مذکورہ بالا سند کے منکر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمام نے حدیث کا لفظ روایت کرنے میں ثقات کی مخالفت کی ہے اور اس متن کو ایک دوسری حدیث کے متن کے ساتھ خلط ملط کردیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب پاخانہ میں داخل ہوتے تو اپنی انگوٹھی نکال کر رکھ دیتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے، معروف وہ روایت ہے جسے ابن جریج نے زیاد بن سعد سے، زیاد نے زہری سے اور زہری نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی (اسے پہنا) پھر اسے نکال کر پھینک دیا۔ اس حدیث میں ہمام راوی سے وہم ہوا ہے، اسے صرف ہمام ہی نے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas ibn Malik (RA): When the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) entered the privy, he removed his ring. Abu Dawud said: This is a munkar tradition, i.e. it contradicts the well-known version reported by reliable narrators. On the authority of Anas the well-known version says: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) had a silver ring made for him. Then he cast it off. The misunderstanding is on the part of Hammam (who is the narrator of the previous tradition mentioned in the text). This is transmitted only by Hammam.