Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding Multazam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1900.
جناب محمد بن عبداللہ بن سائب اپنے والد (عبداللہ بن سائب) سے بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا ہاتھ پکڑ کر چلتے تھے (جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے) اور انہیں تیسرے کونے کے پاس کھڑا کر دیتے تھے جو کہ حجر اسود کے ساتھ دروازہ کعبہ کے پاس ہے تو سیدنا ابن عباس ؓ اسے کہتے: ”کیا خبر دی گئی ہے تمہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہاں نماز پڑھا کرتے تھے؟“ تو وہ کہتے کہ ہاں! پھر وہ کھڑے ہو جاتے اور نماز پڑھتے۔
تشریح:
سند اس روایت کی بھی ضعیف ہے۔ مگر دیگر روایات کی روشنی میں صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یہ عمل ثابت ہے۔ اور صحیح ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ محمد بن عبد الله بن السائب مجهول) .إسناده: حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة: ثنا يحيى بن سعيد: ثنا السائب ابن عمر الخزومي: حدثني محمد بن عبد الله بن السائب...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، محمد بن عبد الله بن السائب وهو المخزومي، قال الذهبي وغيره: وما حدث عنه سوى السائب بن عمر، مجهول ؛ وأما قول المنذري في مختصره : شبه مجهول . فلا وجه له.والحديث أخرجه النسائي (2/36) من طريق أخرى عن يحيى... به.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
جناب محمد بن عبداللہ بن سائب اپنے والد (عبداللہ بن سائب) سے بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا ہاتھ پکڑ کر چلتے تھے (جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے) اور انہیں تیسرے کونے کے پاس کھڑا کر دیتے تھے جو کہ حجر اسود کے ساتھ دروازہ کعبہ کے پاس ہے تو سیدنا ابن عباس ؓ اسے کہتے: ”کیا خبر دی گئی ہے تمہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہاں نماز پڑھا کرتے تھے؟“ تو وہ کہتے کہ ہاں! پھر وہ کھڑے ہو جاتے اور نماز پڑھتے۔
حدیث حاشیہ:
سند اس روایت کی بھی ضعیف ہے۔ مگر دیگر روایات کی روشنی میں صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یہ عمل ثابت ہے۔ اور صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن سائب کہتے ہیں کہ وہ ابن عباس ؓ کو لے کر جاتے (جب ان کی بینائی ختم ہو گئی) اور ان کو اس تیسرے کونے کے پاس کھڑا کر دیتے جو اس رکن کعبہ کے قریب ہے جو حجر اسود کے قریب ہے اور دروازے سے ملا ہوا ہے تو ابن عباس ؓ ان سے کہتے: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس جگہ نماز پڑھتے تھے؟ وہ کہتے: ہاں، تو ابن عباس ؓ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھتے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abdullah ibn as-Sa'ib reported on the authority of his father as-Sa'ib that he used to lead Ibn 'Abbas (RA) (when he become blind) and make him stand in the third corner that was adjacent to the corner (Black Stone) near the entrance of the Ka'bah. Ibn 'Abbas (RA) used to say: Has it been reported to you that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) would pray in this place. He would reply: Yes. He then used to stand (there) and pray.