Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding As-Safa and Al-Marwah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1904.
کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے صفا اور مروہ کے درمیان پوچھا: اے ابوعبدالرحمٰن! میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ چل رہے ہیں جبکہ لوگ دوڑ رہے ہیں۔ (کیوں؟) انہوں نے کہا: اگر میں چلوں تو بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور اگر میں دوڑوں تو میں نے آپ ﷺ کو دوڑتے ہوئے دیکھا ہے، اور میں (اب) بوڑھا ہو گیا ہوں۔
تشریح:
یعنی صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا (دوڑنا) چاہیے۔ لیکن اگر کوئی بیماری یا شدید بڑھاپے کی وجہ سے دوڑ نہ سکے تو اس کے لئے چلنا بھی کفایت کر جائے گا۔ واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح، وقال الترمذي: حسن صحيح ، وصححه ابن خزيمة) .إسناده: حدثنا النفيلي: ثنا زهير: ثنا عطاء بن السائب عن كثير بن جُمْهان.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال البخاري؛ غير كثير بن جمهان، وثقه ابن حبان فقط، وروى عنه ليث بن أبي سليم أيضاً. وقال الحافظ: مقبول .فمثله يمكن تحسين حديثه؛ لا سيما إذا توبع، وقد توبع كما يأتي.لكن عطاء كان اختلط.وبه أعله المنذري! وليس بشيء؛ فقد رواه عنه سفيان الثوري أيضاً كما يأتي؛وهو سمع منه قبل الاختلاط.والحديث أخرجه الترمذي (864) - وقال: حسن صحيح - وابن ماجه(2/232) ، والبيهقي (5/99) ، وأحمد (2/61 و 120) من طرق أخرى عن عطاء... به.وتابعهم سفيان الثوري عنه: أخرجه النسائي (2/42) ، وأحمد (2/53) .ثم رواه النسائي من طريق عبد الرزاق قال: أنبأنا الثوري عن عبد الكريم الجزري عن سعيد بن جبير قال:رأيت ابن عمر... وذكر نحوه.
قلت: وهذا إسناد صحيح.وأخرجه ابن خزيمة في صحيحه (2772) من طريق أخرى عن الثوري... به.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
تمہید باب
(إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّـهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ)(البقرۃ۔158)''بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ (کےدین) کی نشانیوں میں سے ہیں۔ سو جو کوئی بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرے۔تو اس پر گناہ نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے۔اور جو کوئی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو اللہ تعالیٰ قدردان ہے۔خوب جاننے والا ہے۔''
اس آیت کریمہ کو اس کا پس منظر (شان نزول) جانے بغیر پڑھا سنا جائے۔تو بظاہر سمجھا جاتا ہےکہ صفا اور مروہ کی سعی ایک عام سا مستحب عمل ہے۔کوئی لازمی اور واجبی نہیں حالانکہ یہ واجب ہے۔ جناب عروہ ؒ نے اپنے اسی اشکال کا اظہار اپنی خالہ ام المومنین ام عبد اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کیا توانہوں نے اس کے پس منظر(شان نزول) کی روشنی میں انھیں سمجھایا کہ یہ آیت صفا اور مروہ کی سعی کے واجب یا غیر واجب ہونے کے بیان میں نہیں بلکہ انصار کے ایک قدیم شبہ کا جواب ہے۔جوان کے زہنوں میں بیٹھا ہوا تھا۔اور وہ سعی سے گریزاں تھے۔ صفا مروہ کی سعی اعمال حج وعمرہ کا رکن ہے۔اور رسو ل اللہ ﷺ کے قول وفعل سے ثابت ہے۔ آپﷺنے فرمایاتھا۔(لتاخذوامناسككم)(صحیح مسلم الحج حدیث 1297 وسنن ابی دائود المناسک حدیث 1970)''(مجھ سے)اپنی عبادت حج کا طریقہ سیکھ لو۔''صحیح مسلم میں ہے۔ ما اتم الله حج امري ولاعمرته لم يطف بين الصفا والمروة)(صحيح مسلم الحج حديث ١٢٧٧)اللہ اس کا حج اور عمرہ پورا نہ کرے۔جو صفا مروہ کی سعی نہیں کرتا۔''(تفصیل کےلئے نیل الاوطار باب السعی بین الصفا والمروۃ 58/5)
کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے صفا اور مروہ کے درمیان پوچھا: اے ابوعبدالرحمٰن! میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ چل رہے ہیں جبکہ لوگ دوڑ رہے ہیں۔ (کیوں؟) انہوں نے کہا: اگر میں چلوں تو بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور اگر میں دوڑوں تو میں نے آپ ﷺ کو دوڑتے ہوئے دیکھا ہے، اور میں (اب) بوڑھا ہو گیا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
یعنی صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا (دوڑنا) چاہیے۔ لیکن اگر کوئی بیماری یا شدید بڑھاپے کی وجہ سے دوڑ نہ سکے تو اس کے لئے چلنا بھی کفایت کر جائے گا۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ صفا و مروہ کے درمیان عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک شخص نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! میں آپ کو (عام چال چلتے) دیکھتا ہوں جب کہ لوگ دوڑتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اگر میں عام چال چلتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عام چال چلتے دیکھا ہے اور اگر میں دوڑ کر کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سعی (دوڑتے) کرتے دیکھا ہے اور میں بہت بوڑھا شخص ہوں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Kathir ibn Jamhan said: A man asked 'Abdullah ibn 'Umar (RA) between as-Safa and al-Marwah: 'Abdur Rahman, I see you walking while the people are running (between as-Safa and al-Marwah)? He replied: If I walk, I saw the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) running. I am too old.