Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Leaving For Mina)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1912.
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس ؓ سے کہا کہ مجھے وہ بات بتائیے جو آپ کو رسول اللہ ﷺ سے یاد ہو۔ ترویہ کے روز (آٹھویں ذی الحجہ کو) رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا: منیٰ میں۔ میں نے کہا: نفر والے دن (واپسی کے روز، 13 ذوالحجہ کو) آپ ﷺ نے عصر کی نماز کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا: وادی ابطح (محصب) میں۔ پھر فرمایا ویسے ہی کرو جیسے کہ تمہارے امراء کرتے ہیں۔
تشریح:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ مسائل واجب امور میں سے نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا معمول اور سنت ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے۔ تاہم کسی عذر کے باعث ان پر عمل نہ ہوسکے تو کوئی حرج نہیں۔ مباحات میں اولوالامر کی متابعت اور ان کی مخالفت سے احتراز کیا جائے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو والبخاري.وصححه الترمذي) .إسناده: حدثنا أحمد بن إبراهيم: ثنا إسحاق الأزرق عن سفيان عن عبد العزيز بن رفيع.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير أحمد بن إبراهيم- وهوالدَّوْرَقِي-، فهو على شرط مسلم وحده؛ وقد أخرجاه كما يأتي.والحديث أخرجه أحمد (3/100) : ثنا إسحاق... به.ومن طريقه: أخرجه الدارمي (2/55) .ثم أخرجه هو، والبخاري (3/399 و 466) ، ومسلم (4/84- 85) ، والترمذي(964) - وقال: حديث حسن صحيح -، والنسائي (2/44) ، والبيهقي(5/112) ، وابن الجارود (494) ، وأبو يعلى (7/106- 107) من طريق أخرى عن إسحاق بن يوسف الأزرق... به.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس ؓ سے کہا کہ مجھے وہ بات بتائیے جو آپ کو رسول اللہ ﷺ سے یاد ہو۔ ترویہ کے روز (آٹھویں ذی الحجہ کو) رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا: منیٰ میں۔ میں نے کہا: نفر والے دن (واپسی کے روز، 13 ذوالحجہ کو) آپ ﷺ نے عصر کی نماز کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا: وادی ابطح (محصب) میں۔ پھر فرمایا ویسے ہی کرو جیسے کہ تمہارے امراء کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ مسائل واجب امور میں سے نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا معمول اور سنت ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے۔ تاہم کسی عذر کے باعث ان پر عمل نہ ہوسکے تو کوئی حرج نہیں۔ مباحات میں اولوالامر کی متابعت اور ان کی مخالفت سے احتراز کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے سوال کیا اور کہا: مجھے آپ وہ بتائیے جو رسول اللہ ﷺ سے آپ کو یاد ہو کہ آپ نے ظہر یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا: منیٰ میں، میں نے عرض کیا تو لوٹنے کے دن آپ ﷺ نے عصر کہاں پڑھی؟ فرمایا: ابطح میں، پھر کہا: تم وہی کرو جو تمہارے امراء کریں۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں امیر کی مخالفت نہ کرو کیوں کہ ان کی مخالفت بسا اوقات فتنوں اور فساد کا موجب ہوتی ہے، خصوصاً جب کہ امراء ظالم ہوں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع تو ہر حال میں بہتر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abd Al ‘Aziz bin Rufai’ said I asked Anas bin Malik (RA) saying “Tell me something you knew about the Apostle of Allah(صلی اللہ علیہ وسلم) viz where he offered the noon prayer on Yawm Al Tarwiyah(8th of Dhu Al Hijjah). He replied, In Mina I asked Where did he pray the afternoon prayer on Yaum Al Nafr (12th or 13th of Dhu Al Hijjah). He replied In al-Abtah he then said “Do as your commanders do”.