Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Entering 'Arafah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1914.
سیدنا ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ جب حجاج نے سیدنا (عبداللہ) ابن الزبیر ؓ کو شہید کر دیا تو ابن عمر ؓ سے پچھوا بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ اس دن کس وقت یہاں سے چلتے تھے؟ انہوں نے کہا: جب وقت ہو جائے گا ہم چل پڑیں گے۔ پھر جب ابن عمر ؓ نے چلنے کا ارادہ کیا تو ساتھی بولے: سورج نہیں ڈھلا ہے، پھر پوچھا : کیا ڈھل گیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں ڈھلا ہے یا ڈھل گیا ہے پس جب انہوں نے کہا کہ ڈھل گیا ہے، تو وہ روانہ ہو گئے۔
تشریح:
اصحاب کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ عمل کی کسی جزئی کو بھی غیر اہم نہیں سمجھتے تھے ان کی انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ سب پر من وعن عمل کیا جائے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث حسن) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا وكيع: ثنا نافع بن عمر عن سعيد بن حسان عن ابن عمر.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير سعيد بن حسان؛ فلم يوثقه غير ابن حبان، وقد روى عنه أيضاً إبراهيم بن نافع الصائغ. فمثله قد يحسن حديثه؛ لا سيما في الشواهد والمتابعات، والحديث الذي قبله مما يشهد له.وكذلك حديث ابن الزبير قال: مِنْ سُنةِ الحج: أن يصلىَ الإمام الظهرَ والعصرَوالمغربَ والعشاءَ الآخرةَ والصبحَ بمنىً، ثم يغدوَ إلى عرفة فيقيلَ حيث قُضِيَ له،حتى إذا زالت الشمس؛ خطب الناس: ثم صلى الظهر والعصر جميعاً، ثم وقف بعرفات ... الحديث.أخرجه الحاكم، وصححه، ووافقه الذهبي ، وقد تقدم قريباً.والحديث في المسند (2/25) ... سنداً ومتناً؛ إلا أنه سقط من السند ذكروكيع، ومن المتن بعض الأحرف.وأخرجه ابن ماجه (2/236) من طريق أخرى عن وكيع... به.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ جب حجاج نے سیدنا (عبداللہ) ابن الزبیر ؓ کو شہید کر دیا تو ابن عمر ؓ سے پچھوا بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ اس دن کس وقت یہاں سے چلتے تھے؟ انہوں نے کہا: جب وقت ہو جائے گا ہم چل پڑیں گے۔ پھر جب ابن عمر ؓ نے چلنے کا ارادہ کیا تو ساتھی بولے: سورج نہیں ڈھلا ہے، پھر پوچھا : کیا ڈھل گیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں ڈھلا ہے یا ڈھل گیا ہے پس جب انہوں نے کہا کہ ڈھل گیا ہے، تو وہ روانہ ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
اصحاب کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ عمل کی کسی جزئی کو بھی غیر اہم نہیں سمجھتے تھے ان کی انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ سب پر من وعن عمل کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر ؓ کو قتل کیا تو ابن عمر ؓ کے پاس (پوچھنے کے لیے آدمی) بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ آج (یعنی عرفہ) کے دن (نماز اور خطبہ کے لیے) کس وقت نکلتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا جب یہ وقت آئے گا تو ہم خود چلیں گے، پھر جب ابن عمر ؓ نے چلنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا: ابھی سورج ڈھلا نہیں، انہوں نے پوچھا: کیا اب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا، پھر جب لوگوں نے کہا کہ سورج ”ڈھل گیا“ تو وہ چلے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): When al-Hajjaj killed Ibn Zubayr, he sent a message to Ibn Umar asking him: At which moment the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) used to proceed (to Arafat) this day? He replied: When it happens so, we shall proceed. When Ibn Umar intended to proceed, the people said: The sun did not decline. He (Ibn Umar) asked: Did it decline? They replied: It did not decline. When they said that the sun had declined, he proceeded.