Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Not Performing Wudu' FRom [Food Which Had Been Cooked] Over Fire)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
192.
سیدنا جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل یہ تھا کہ آپ ﷺ نے آگ پر پکی چیزوں کے استعمال سے وضو کرنا چھوڑ دیا تھا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ روایت پہلی حدیث کا اختصار ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذ ا قال النووي وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحهما ) (1) . قال أبو داود: هذا اختصار من الحديث الأول (2) . (1) ورواه الحاكم في علوم الحديث (ص 85) ؛ واحتج به على نسخ الأحاديث الواردة في الباب الأتي بعده. (2) وبنحو هذا أعله أبو حاتم؛ كما ذكره ابنه في العلل (رقم 168 و 174) ! ورد ذلك ابن حزم فقال (1/243) : وقد ادعى قهم أن هذا الحديث مختصر من الحديث الذي حدثنا... ؛ ثم ساق الحديث الأول، ثم قال: القطع بأن ذلك الحديث مختصر من هذا؛ قول بالظن؛ والظن أكذب الحديث، بل هما حديثان كما وردا . وهذا هو للظاهر؛ فإن توهيم الرواه الثقات بدون دليل أو برهان لا يجوز، وقد أيد ما ذهب إليه ابن حزم: المحقق أحمد محمد شاكر في تعليقه على الترمذي (1/121- 122) ، وأيد ذلك ببعض النقول؛ فراجعه فإنه نفيس. (قلت: كذا قال! ورده ابن حزم؛ وجزم أنه حديث آخر مستقل عن الأول؛ وهو الظاهر) . إسناده: حدثنا موسى بن سهل أبو عمران الرملي: ثنا علي بن عياش: ثنا شعيب بن أبي حمزة عن محمد بن المنكدرعن جابر. وهذا إسناد صحيح؛ رجاله ثقات رجال البخاري؛ غير موسى بن سهل أبي عمران الرملي، وهو ثقة، وقد توبع. والحديث أخرجه النسائي 1/40) ، ومن طريقه ابن حزم (1/243) ، وكذا الحازمي (ص 32) ، والطحاوي (1/40) ، والطبراني في الصغير (ص 140) ، والبيهقي (1/155) من طرق عن علي بن عياش... به. وقال الطبراني: لم يرو هذا الحديث عن محمد بن المنكدر إلا شعيب . قلت: وهو ثقة اتفاقاً. وقال الخليلي: كان كاتب الزهري، وهو ثقة متفق عليه، حافظ، أثنى عليه الأئمه . ولذلك قال النووي (4/57) : حديث صحيح؛ رواه أبو داود والنسائي وغيرهم بأسا نيد صحيحة ! كذا قال! وليس له- بهذا اللفظ- إلا إسناد واحد؛ فتنبه! وكثيراً ما يطلق النووي رحمه الله مثل هذه العبارة على حديث وحيد الإسناد؛ فكن من ذلك على ذكْرٍ وبينة! وقال الحافظ في التلخيص (2/6) : رواه الأربعة وابن خزيمة وابن حبان ! وقد سها في عزوه إياه للأربعة؛ فليس هو عند الترمذي وابن ماجه؛ وإنما لهما الحديث الذي قبله.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل یہ تھا کہ آپ ﷺ نے آگ پر پکی چیزوں کے استعمال سے وضو کرنا چھوڑ دیا تھا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ روایت پہلی حدیث کا اختصار ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری فعل یہی تھا کہ آپ آگ کی پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو نہیں کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ پہلی حدیث کا اختصار ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir (RA) said: The last practice of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) was that he did not perform ablution after taking anything that was cooked with the help of fire. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This is the abridgment of the former tradition