Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Strictness In This Regard)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
194.
سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جو چیز آگ سے پکی ہو (اس کے استعمال سے) وضو لازم ہے۔“
تشریح:
آگ پر پکی چیزوں سے وضو ابتدائے اسلام کا حکم تھا جو کہ منسوخ ہو گیا جیسے کہ اوپرکی حدیث میں مذکورہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وأخرجه مسلم وأبو عوانة في صحيحيهما ) إسناده: حدثنا مسدد: قال: ثنا يحيى عن شعبة قال: حدثني أبو بكر بن حفص عن الأغر عن أبي هريرة. وهذا إسناد صحيح، رجاله رجال الشيخين؛ غير مسدد؛ فهو من رجال البخاري، فهو على شرطه. وأبو بكر بن حفص: اسمه عبد الله. والأغر: اسمه سلمان أبو عبد الله. والحديث أخرجه أحمد (2/458) : ثنا محمد بن جعفر قال: ثنا شعبة... به. وهذا على شرطهما. وأخرجه مسلم (11/87) ، وأبو عوانة (1/268- 269) ، والطحاوي (1/38) ، والبيهقي، والحا زمي، والطيالسي (رقم 2376) ، وأحمد أيضا (2/265 و 271 و 427 و 470 و 479) من طريق إبراهيم بن عبد الله بن قارظ: أنه وجد أبا هريرة يتوضأ على السجد، فقال: إنما أتوضأ من أثْوارِ آقِط أكلتها؛ لأني سمعت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول: توضأوا مما مست النار . وأخرجه الترمذي (1/114- 115) ، وابن ماجه (1/178) ، والطحاوي، وأحمد (2/503) من طريق محمد بن عمرو بن علقمة عن أبي سلمة عن أبي هريرة... به نحوه؛ وزاد الأولان: قال: فقال له ابن عباس: يا أبا هريره! أنتوضأ من الدهن؟! أنتوضأ من الحميم؟! قال: فقال أبو هريرة: يا ابن أخي! إذا سمعت حديث ً عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/فلا تضرب له مثلاً. وهذا إسناد حسن. وهو عند الطحاوي من طريق الزهري عن أبي سلمة... به. وإسناده صحيح. وللحديث شواهد كثيرة جداٌ، استوعب أكثرَها النسائي والطحاوي. ومنها عن زيد بن ثابت: عند مسلم وأبو عوانة.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘