Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Leaving Early From Jam' (Al-Muzdalifah))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1943.
ایک خبر دینے والے نے بیان کیا کہ سیدہ اسماء (بنت ابی بکر ؓ) نے جمرہ کی رمی کی تو میں نے کہا: ہم نے تو رات میں رمی کی ہے۔ (کنکریاں ماری ہیں) انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم یہی کیا کرتے تھے۔
تشریح:
مذکورہ دونوں روایتوں میں سورج طلوع ہونے سے قبل کنکریاں مارنے کا ذکر ہے۔ اس کی بابت صاحب عون لکھتے ہیں کہ یہ صرف عورتوں بچوں اور ان کے غلاموں کے لیے ہے جو ان کی خدمت کے لیے ہوں۔ ان کے علاوہ دس ذوالحجہ کو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ طلوع فجر سے پہلے کنکریاں مارے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ واللہ اعلم.
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح. وأخرجه الشيخان نحوه) .إسناده: حدثنا محمد بن خَلاد الباهلي. ثنا يحيى عن ابن جريح: أخبرني عطاء.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير مُخْبِرِ عطاء؛ فإنه لم يُسَمَّ في هذه الرواية؛ إلا أنه قد جاء مسمى في بعض الروايات الأخرىبـ: عبد الله مولى أسماء بنت أبي بكر- وهو ابن كيسان القرشي التيمي أبو عمرالمدني-، وهو ثقة؛ قال المصنف: ثبت .فصح الحديث، والحمد لله.ويحيى: هو ابن سعيد بن فَرُّوخِ القَطَان، الحافظ الإمام في الجرح والتعديل،وكان لا يحدث إلا عن ثقة، وهو أجل أصحاب مالك بالبصرة.والحديث أخرجه أحمد (6/347) : ثنا يحيى بن سعيد عن ابن جريج قال:أخبرني عبد الله مولى أسماء عن أسماء:أنها نزلت عند دار المزدلفة، فقالت: أي بُنَيَّ! هل غاب القمر ليلة جمع؟ وهي تصلي. قلت: لا. فصلت ساعة، ثم قالت. أي بُنَيَّ! هل غاب القمر؟ قال- وقدغاب القمر-: قلت: نعم. قالت: فارتحلوا. فارتحلنا، ثم مضينا بها حتى رمينا الجمرة، ثم رجعت فَصَلَّتِ الصبح في منزلها. فقلت لها: أيْ هَنْتَاهْ! لقد غلسنا؟!قالت: كلا يا بُنَيَّ! إن نبيَّ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أذن للظعْنِ.هكذا صرح ابن جريج بالتحديث، ولم يذكر عطاءً.وكذلك رواه أحمد أيضاً (6/351) - عن محمد بن بكر وروح-، والبخاري(3/414) ، والبيهقي (5/133) - عن مسدد-، ومسلم (4/77) - عن محمد بن أبي بكر المقَدَّمي- كلهم عن يحيى... به.وتابعه عيسى بن يونس عن ابن جريج... به. أخرجه مسلم.وسعيد بن سالم: عند الطحاوي (1/412) .ورواه الطيالسي (1/222) عن طلحة عن عبد الله... به مختصراً.وطلحة: هو ابن عمرو المكي، متروك.وأخرجه مالك (1/350) عن يحيى بن سعيد عن عطاء بن أبي رباح أن مولاة (!) لأسماء بنت أبي بكر أخبرته قالت:جئنا مع أسماء ابنة أبي بكر مِنىً بِغَلَسِ، قالت: فقلت لها: لقد جئنا منى بغلس؟! فقالت: قد كنا نصنع ذلك مع من هو خير منك.كذا وقع فيه: مولاة ! بالتأنيث. وفي الفتح (3/415) معزواً لمالك:مولى.. بالتذكير، وقال: وكذا أخرجه الطبراني من طريق أبي خالد الأحمر عن يحيى بن سعيد.فالظاهر أن ابن جريج سمعه من عطاء، ثم لقي عبد الله فأخذه عنه. ويحتمل أن يكون مولى أسماء شيخ عطاء غير عبد الله .ثم رأيته في النسائي (2/49) عن مالك... بلفظ: مولى.. كما نقله في الفتح .
قلت: ويحيى بن سعيد شيخ مالك ، لبس هو القطان، وإنما هو الأنصاري القاضي، ولكني لم أجد في شيوخه عطاءً! والله أعلم.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
ایک خبر دینے والے نے بیان کیا کہ سیدہ اسماء (بنت ابی بکر ؓ) نے جمرہ کی رمی کی تو میں نے کہا: ہم نے تو رات میں رمی کی ہے۔ (کنکریاں ماری ہیں) انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم یہی کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ دونوں روایتوں میں سورج طلوع ہونے سے قبل کنکریاں مارنے کا ذکر ہے۔ اس کی بابت صاحب عون لکھتے ہیں کہ یہ صرف عورتوں بچوں اور ان کے غلاموں کے لیے ہے جو ان کی خدمت کے لیے ہوں۔ ان کے علاوہ دس ذوالحجہ کو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ طلوع فجر سے پہلے کنکریاں مارے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ واللہ اعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسماء ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے جمرہ کو کنکریاں ماریں، مخبر (راوی حدیث) کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ہم نے رات ہی کو جمرے کو کنکریاں مار لیں، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Ata' said: A reporter reported to me about Asma' that she threw pebbles at the jamrah at night. I said: We threw pebbles (at the jamrah) at night. She said: We used to do so in the lifetime of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم).