Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: The Sacred Months)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1948.
محمد بن سیرین، ابن ابی بکرہ سے وہ (اپنے والد) ابوبکرہ ؓ سے وہ نبی کریم ﷺ سے مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت کرتے ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ ابن عون نے نام لے کر کہا کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ (اپنے والد) ابوبکرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير مسدد، فهو من رجال البخاري؛ فهو صحيح على شرطه من الوجه الأول؛ لأن ابن أبي بكرة: هو عبد الرحمن، كما في الوجه الثاني العلق، وسأذكر من وصله.لكن ابن أبي بكرة قد سقط من بعض نسخ الكتاب المطبوعة من الوجه الأول؛ فلا أدري أهكذا وقعت الرواية للمؤلف؟! أو هو لسقط من بعض النساخ؟ولعله يؤيد الأولَ أن المنذري قال في مختصره : حديث ابن سيرين عن أبي بكرة: أخرجه النسائي، وحديث ابن سيرين عن ابن أبي بكرة عن أبيه: أخرجه البخاري ومسلم وابن ماجه مختصراً ومطولاً .ويزيده تأييداً: أن أحمد رواه كالنسائي كما يأتي.والحديث أخرجه أحمد (5/37) ، وابن سعد (2/186) : ثنا إسماعيل: أناأيوب عن محمد بن سيرين عن أبي بكرة...هكذا لم يذكر: ابن أبي بكرة! وهو كذلك عند بعض رواة البخاري؛ لروايةحماد بن زيد الآتية. قال الحافظ (1/161) : فصار منقطعاً؛ لأن محمداً لم يسمع من أبي بكرة .أقول: ولا يُعَل الحديث بذلك؛ لأن المحفوظ عن عبد الوهاب عن أيوب وغيره:إثبات ابن أبي بكرة. وإليك البيان:أخرجه البخاري (6/226 و 8/87- 88 و 13/370- 371) - عن محمد بن المثنى- و (10/6) - عن محمد بن سلام-، ومسلم (5/107) - عن أبي بكر بن أبي شيبة ويحيى بن حبيب الحارثي- كلهم؟قالوا: حدثنا عبد الوهاب الثقفي عن أيوب عن ابن سيرين عن ابن أبي بكرة... به.وتابعه حماد عن أيوب... به:أخرجه البخاري (1/161) .وحماد: هو ابن زيد، وقد عرفت ما وقع في روايته من السقط عند بعض رواة كتاب البخاري .وتابعه على وصله: عبد الله بن عون؛ علقه المصنف عنه، وقد وصله البخاري(1/129) ، ومسلم، وأحمد (5/37 و 45) من طرق عنه عن محمد بن سيرين عن عبد الرحمن بن أبي بكرة... به؛ لكنه لم يذكر هذا الطرف من الحديث،وإنما ذكر ما بعده من قوله: أتدرون أي يوم هذا؟... الحديث.وتابعه أيضاً قُرَةُ بن خالد فقال: عن محمد بن سيرين قال: أخبرني عبد الرحمن ابن أبي بكرة عن أبي بكرة، ورجل أفضل في نفسي من عبد الرحمن- حميد بن عبد الرحمن عن أبي بكرة-... بمثل حديث ابن عون: أخرجه البخاري(3/453) ، ومسلم، و البيهقي (5/140) ، وأحمد (5/39 و 49) .وللحديث شاهد من رواية علي بن زيد عن أبي حُرَةَ الرقَاشِي عن عَمِّه...مرفوعاً به؛ دون تسمية الأشهر.أخرجه أحمد (5/72- 73) وسنده لا بأس به في الشواهد.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
محمد بن سیرین، ابن ابی بکرہ سے وہ (اپنے والد) ابوبکرہ ؓ سے وہ نبی کریم ﷺ سے مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت کرتے ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ ابن عون نے نام لے کر کہا کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ (اپنے والد) ابوبکرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی ابوبکرہ ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن عون نے اس حدیث میں ان کا نام لیا ہے اور یوں کہا ہے: «عن عبدالرحمٰن بن أبي بكرة عن أبي بكرة»
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The aforesaid tradition has also been transmitted by Abu Bakrah through a different chain of narrators. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Ibn 'Awn has mentioned his ('Abu Bakrah's) name and narrated this tradition: From 'Abd al-Rahman b. Abi Bakrah on the authority of Abu Bakrah.