Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: The Salat At Mina)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1964.
امام زہری ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان ؓ نے منٰی میں بدوی لوگوں کی وجہ سے پوری نماز پڑھی تھی کیونکہ وہ اس سال بہت کثیر تعداد میں آئے تھے تو انہوں نے لوگوں کو چار رکعتیں پڑھائیں تاکہ ان بدویوں کو معلوم رہے کہ نماز چار رکعات ہے۔
تشریح:
یہ چاروں آثار ضعیف ہے۔ اس لیے حضرت عثمان کےمنی ٰ میں پوری نماز پڑھنے کی وجہ صرف مسافر کے لیے قصر کی بجائے پوری نماز پڑھنے کا جواز ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن لغيره، وقد قواه الحافظ) .إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد عن أيوب عن الزهري.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال مسلم؛ لكنه منقطع؛ لكنه قد روي موصولاً من وجه آخر كما يأتي.والحديث أخرجه البيهقي (3/144) من طرين المصنف.وأخرجه الطحاوي (1/247) من طريق أخرى عن حماد بن سلمة... به.ويقويه ما أخرجه البيهقي من طريق سليمان بن سالم مولى عبد الرحمن بن حميد عن عبد الرحمن بن حميد عن أبيه عن عثمان:أنه أتم الصلاة بمنى، ثم خطب الناس فقال: يا أيها الناس! إن السنة سنةرسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وسنة صاحبيه؛ ولكنه حَدَثَ العام (كذا ولعل الصواب: طَغامٌ ؛كما في الفتح ) ، فخِفْتُ أن يَسْتَنُوا.وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات معروفون؛ غير سليمان بن سالم- وهو العَطارالمدني القرشي-، ذكره ابن حبان في الثقات . وقال ابن عدي: ولا أرى بمقدار ما يرويه بأساً . وقال ابن أبي حاتم (2/1/120) عن أبيه: شيخ . وقال الحافظ- عقب هذه الطريق من رواية البيهقي-: وعن ابن جريج. أن أعرابياً ناداه في منى. يا أمير المؤمنين! ما زلتُ أصليهامنذ رأيتك عامَ أولَ ركعتين. وهذه طرق يُقَوِّي بعضها بعضاً .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
امام زہری ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان ؓ نے منٰی میں بدوی لوگوں کی وجہ سے پوری نماز پڑھی تھی کیونکہ وہ اس سال بہت کثیر تعداد میں آئے تھے تو انہوں نے لوگوں کو چار رکعتیں پڑھائیں تاکہ ان بدویوں کو معلوم رہے کہ نماز چار رکعات ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ چاروں آثار ضعیف ہے۔ اس لیے حضرت عثمان کےمنی ٰ میں پوری نماز پڑھنے کی وجہ صرف مسافر کے لیے قصر کی بجائے پوری نماز پڑھنے کا جواز ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زہری سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان ؓ نے منیٰ میں نماز اس وجہ سے پوری پڑھی کہ اس سال بدوی لوگ بہت آئے تھے تو انہوں نے چار رکعتیں پڑھیں تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہو کہ نماز (اصل میں) چار رکعت ہی ہے (نہ کہ دو، جو قصر کی صورت میں پڑھی جاتی ہے)۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Az-Zuhri: 'Uthman (RA) offered complete prayer at Mina for the sake of bedouins who attended (hajj) in large numbers that year. He led the people four rak'ahs in prayer in order to teach them that the prayer (i.e. noon or afternoon prayer) essentially contained four rak'ahs.