Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Tawaf Of Al-Ifadah In Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1998.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی والے دن طواف افاضہ کیا، پھر لوٹ کر منٰی میں ظہر کی نماز پڑھی۔
تشریح:
عرفات اور مزدلفہ سے لوٹنے کے بعد دسویں تاریخ کو یا اس کے بعد کسی وقت بیت اللہ کا طواف کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید کا حکم ہے۔ (وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ) (الحج ۔29) انھیں چاہیے کہ قدیم گھر کا طواف کریں اس طواف کو طواف افاضہ طواف زیارہ اور طواف رکن بھی کہتے ہیں۔ افضل یہی ہے کہ دسویں ذی الحجہ کو کرلیا جائے۔ یا ایام تشریق میں کسی وقت۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے مکہ سے واپس لوٹ کر منیٰ میں ظہر کی نماز پڑھی جبکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایات میں ہے۔ کہ آپ نے مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی۔ بعد ازاں آپ منیٰ میں تشریف لائے۔ دونوں روایتیں سندا صحیح ہیں۔ اور محدثین نے اپنے اپنے انداز میں ترجیح دی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دیگر نے منیٰ میں نماز پڑھنے کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ اور اس کی کوئی وجوہ ہیں۔
(الف) اگر آپ مکہ میں ظہر کی نماز پڑھتے تو منیٰ میں اپنا کوئی نائب بنا کر جاتے جو انہیں ظہر کی نماز پڑھاتا اور یہ منقول نہیں ہے۔ اور نائب کا نماز پڑھانا محال ہے۔ اور کسی نے اس کا ذکر بھی نہیں کیا ہے۔ حالانکہ ایک سفر میں آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا نائب بنایا تھا۔ ایک بار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا نائب بنایا تھا۔ جبکہ آپ بنو عمرو بن عوف میں ان کے درمیان صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے تھے اسی طرح اس ایام مرض میں بھی آپ نے ان کو اپنا امام بنایا تھا۔ اور یہ سوال کہ مکہ میں آپ نے نائب نہیں بنایا۔ تو اس کی قطعاً ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیونکہ ان لوگوں کےلئے امام پہلے سے مقرر شدہ تھا جو انہیں نمازیں پڑھاتا تھا۔ (ب) اگرآپ مکہ میں نماز پڑھاتے۔ تو اہل مکہ پوری نماز پڑھتے۔ کیونکہ ان پر اتمام واجب تھا اور نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کو حسب دستور یہ نہیں فرمایا کہ اپنی نماز پوری کرو ہم لوگ مسافر ہیں۔ جیسے کے فتح مکہ کے موقع پر کہا تھا۔ (ج) یہ ممکن ہے کہ فتح مکہ میں آپ کا نماز پڑھنا یا پڑھانا رکعات طواف سے مشتبہ ہوگیا۔ بالخصوص کے لوگ آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ اور آپ کی اقتداء بھی کرتے تھے۔دیکھنے والے نے اس کو نماز ظہر سمجھا ہو۔ مگرآپ کا منیٰ میں نماز پڑھنا کسی طور پرمشتبہ نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص جبکہ آپ حجاج کے امام تھے۔ آپ کےعلاوہ کوئی اور نماز پڑھانے کا مجاز ہی نہ تھا۔ اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ انھیں امام کے بغیر چھوڑ جایئں۔ اور وہ اکیلےاکیلے نماز پڑھیں۔ یہ انتہائی بعید از قیاس بات ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سے کچھ محدثین نے یہ سمجھا ہے کہ نبی کریمﷺنے منیٰ میں نماز ظہر ادا کی۔ بعد ازاں بیت اللہ تشریف لے گئے۔ جیسے کہ وہ کہتی ہیں کہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھ کر دن کے آخری حصہ میں طواف افاضہ کیا۔ پھر منیٰ واپس آگئے۔ دیکھئے۔ (تہذیب ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه مسلم، وعلقه البخاري. وصححه ابن الجارود) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا عبيد الله عن نافع عن ابن عمر.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه مسلم، وعلقه البخاري. ومن عزاه للمتفق عليه؛ فقد وهم! كما بينته في الإرواء (1070) ،والحديث مخرج هناك.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی والے دن طواف افاضہ کیا، پھر لوٹ کر منٰی میں ظہر کی نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
عرفات اور مزدلفہ سے لوٹنے کے بعد دسویں تاریخ کو یا اس کے بعد کسی وقت بیت اللہ کا طواف کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید کا حکم ہے۔ (وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ) (الحج ۔29) انھیں چاہیے کہ قدیم گھر کا طواف کریں اس طواف کو طواف افاضہ طواف زیارہ اور طواف رکن بھی کہتے ہیں۔ افضل یہی ہے کہ دسویں ذی الحجہ کو کرلیا جائے۔ یا ایام تشریق میں کسی وقت۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے مکہ سے واپس لوٹ کر منیٰ میں ظہر کی نماز پڑھی جبکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایات میں ہے۔ کہ آپ نے مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی۔ بعد ازاں آپ منیٰ میں تشریف لائے۔ دونوں روایتیں سندا صحیح ہیں۔ اور محدثین نے اپنے اپنے انداز میں ترجیح دی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دیگر نے منیٰ میں نماز پڑھنے کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ اور اس کی کوئی وجوہ ہیں۔
(الف) اگر آپ مکہ میں ظہر کی نماز پڑھتے تو منیٰ میں اپنا کوئی نائب بنا کر جاتے جو انہیں ظہر کی نماز پڑھاتا اور یہ منقول نہیں ہے۔ اور نائب کا نماز پڑھانا محال ہے۔ اور کسی نے اس کا ذکر بھی نہیں کیا ہے۔ حالانکہ ایک سفر میں آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا نائب بنایا تھا۔ ایک بار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا نائب بنایا تھا۔ جبکہ آپ بنو عمرو بن عوف میں ان کے درمیان صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے تھے اسی طرح اس ایام مرض میں بھی آپ نے ان کو اپنا امام بنایا تھا۔ اور یہ سوال کہ مکہ میں آپ نے نائب نہیں بنایا۔ تو اس کی قطعاً ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیونکہ ان لوگوں کےلئے امام پہلے سے مقرر شدہ تھا جو انہیں نمازیں پڑھاتا تھا۔ (ب) اگرآپ مکہ میں نماز پڑھاتے۔ تو اہل مکہ پوری نماز پڑھتے۔ کیونکہ ان پر اتمام واجب تھا اور نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کو حسب دستور یہ نہیں فرمایا کہ اپنی نماز پوری کرو ہم لوگ مسافر ہیں۔ جیسے کے فتح مکہ کے موقع پر کہا تھا۔ (ج) یہ ممکن ہے کہ فتح مکہ میں آپ کا نماز پڑھنا یا پڑھانا رکعات طواف سے مشتبہ ہوگیا۔ بالخصوص کے لوگ آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ اور آپ کی اقتداء بھی کرتے تھے۔دیکھنے والے نے اس کو نماز ظہر سمجھا ہو۔ مگرآپ کا منیٰ میں نماز پڑھنا کسی طور پرمشتبہ نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص جبکہ آپ حجاج کے امام تھے۔ آپ کےعلاوہ کوئی اور نماز پڑھانے کا مجاز ہی نہ تھا۔ اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ انھیں امام کے بغیر چھوڑ جایئں۔ اور وہ اکیلےاکیلے نماز پڑھیں۔ یہ انتہائی بعید از قیاس بات ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سے کچھ محدثین نے یہ سمجھا ہے کہ نبی کریمﷺنے منیٰ میں نماز ظہر ادا کی۔ بعد ازاں بیت اللہ تشریف لے گئے۔ جیسے کہ وہ کہتی ہیں کہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھ کر دن کے آخری حصہ میں طواف افاضہ کیا۔ پھر منیٰ واپس آگئے۔ دیکھئے۔ (تہذیب ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے یوم النحر کو طواف افاضہ کیا پھر منی میں ظہر ادا کی یعنی (طواف سے) لوٹ کر۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) performed the obligatory circumambulation (Tawaf al-Ziyarah) on the day of the sacrifice; he then offered the noon prayer at Mina when he returned.