Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding The Farewell Tawaf)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2007.
عبدالرحمٰن بن طارق اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب یعلیٰ کے گھر سے آگے بڑھتے تو بیت اللہ کی طرف رخ کرتے اور دعا فرماتے۔ عبیداللہ وہ جگہ بھول گئے تھے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ لجهالة عبد الرحمن بن طارق، واضطرابه في إسناده، فمرة قال: عن أمه، وتارة: عن أبيه، وأخرى: عن عمه، قال البخاري: ولم يصح ) .إسناده: حدثنا يحيى بن معين: ثنا هشام بن يوسف عن ابن جريج: أخبرني عبيد الله بن أبي يزيد أن عبد الرحمن بن طارق أخبره عن أمه...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ غير عبد الرحمن ابن طارق فهو مجهول؛ كما أشار إلى ذلك الذهبي بقوله في الميزان : ما روى عنه سوى عبيد الله بن أبي يزيد . ونحوه قول الحافظ فيه: مقبول . يعني: عند المتابعة، وإلا فلين الحديث.ولا أعلم له متابعاً في هذا الحديث؛ فهو ضعيف. ولا عبرة بتوثيق ابن حبان إياه، لما بينته مراراً من تساهله في التوثيق. ويؤكد ضعفه اضطرابُه في إسناده كماهو مذكور آنفاً ويأتي بيانه.والحديث علقه البخاري في التاريخ (3/1/298) فقال: قال أبو عاصم وهشام بن يوسف عن ابن جريج... فذكره وقال عقبه: وقال بعضهم: عبد الرحمن عن عمه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ولم يصح .والحديت أخرجه النسائي (2/34) ، وأحمد (6/436- 437) من طرق أخرى عن ابن جريج... به.ثم قال أحمد (4/61) : ثنا عبد الرزاق قال: أنا ابن جريج... به؛ إلا أنه قال:عن عمه. وقال عقبها: وقال روح: عن أبيه، وقال ابن بكر: عن أبيه .
قلت: ورواية ابن بكر هذه- وهو محمد بن بكر- قد وصلها أحمد في الموضع الأول؛ لكن وقع فيه: عن أمه، وكذلك وقعت رواية عبد الرزاق هناك، ولا شك عندي أنها محرفة؛ لأنها في المكان الثاني المشار إليه تحت عنوان: حديث رجل عن عمه ، وأما رواية ابن بكر فلا أدري الصواب فيها.(تنبيهان) :الأول: وقعت هذه اللفظة: جاز. عند جميع مخرجيه الذين ذكرتهم، وفي كل المواطن التي أشرت إليها بلفظ: جاء. وهو الصواب الذي يدل عليه السياق،والأول تصحيف من النساخ.الثاتي: قوله: نسبه. بالباء الوحدة، كذلك هو عند جميع مخرجيه، وبعض نسخ الكتاب و مختصره والمعنى أن عبيد الله بن أبي يزيد لما أضاف الدار إلى يعلى؛ نسبه ليعرف فتعرف داره، ولكن ابن جريج لم ينسبه لسبب ما، ولعله نسيه. ووقع في بعض النسخ الأخرى من الكتاب منها نسخة بذل المجهود بلفظ:نسِيه بالمثناة التحتية، وفسره صاحب البذل بقوله: أي المكان وهذا خطأ قائم على تصحيف، يؤيد ذلك أن في رواية لأحمد قال:- يعني: عبيد الله بن أبي يزيد- وكنت أنا وعبد الله بن كثير إذا جئنا ذلك الموضع استقبل البيت فدعا. ومن الغريب أن الصاحب المذكور قد ذكر هذه الرواية، ولم يتنبه لما فيها من الدلالة على التصحيف الذي وقع فيه. والمعصوم من عصمه الله وحده.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
عبدالرحمٰن بن طارق اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب یعلیٰ کے گھر سے آگے بڑھتے تو بیت اللہ کی طرف رخ کرتے اور دعا فرماتے۔ عبیداللہ وہ جگہ بھول گئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن طارق اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب یعلیٰ کے گھر کی جگہ سے آگے بڑھتے (اس جگہ کا نام عبیداللہ بھول گئے) تو بیت اللہ کی جانب رخ کرتے اور دعا مانگتے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: نہ تو یہ حدیث صحیح ہے اور نہ ہی باب سے اس کا کوئی تعلق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdur Rahman ibn Tariq: Abdur Rahman reported on the authority of his mother: When the Messenger of Allah (ﷺ) passed any place from the house of Ya'la,--the narrator Ubaydullah forgot its name--he faced the House (the Ka'bah) and supplicated.