Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding (Praying Behind A Sutrah In) Makkah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2016.
کثیر بن کثیر کے دادا (سیدنا مطلب بن ابی وداعہ ؓ) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو (مسجد الحرام میں) باب بنی سہم کے پاس نماز پڑھتے دیکھا جب کہ لوگ آپ ﷺ کے آگے سے گزر رہے تھے اور ان کے درمیان (رسول اللہ ﷺ اور کعبہ کے مابین) سترہ نہیں تھا۔ سفیان نے بصراحت کہا «ليس بينه وبين الكعبةِ سترةٌ ***» سفیان کہتے ہیں کہ ابن جریج نے اس کی سند میں یوں بیان کیا تھا «أخبرنا كثير ، عن أبيه» یعنی کثیر نے اپنے والد سے بیان کیا، پھر میں نے ان سے (براہ راست) پوچھا تو کہا، میں نے یہ حدیث اپنے والد سے نہیں سنی بلکہ گھر کے کسی دوسرے فرد سے سنی تھی اور اس نے میرے دادا سے روایت کی ہے۔
تشریح:
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع الصحیح میں (کتاب الصلواة، باب السترہ بمکة، حدیث: 501) اور اس کے ضمن میں حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صریح حدیث سے ثابت کیا ہے۔ کہ سترے کے مسئلے میں مکہ اور غیر مکہ سبھی برابر ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اشارہ ہے کہ مصنف عبدا لرزاق میں باب لايقطع الصلاة بمكة شيئ کی حدیث صحیح نہیں۔ اور وہ یہی ہے جو امام ابودائود رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی ہے۔ (عون المعبود) اس لئے مسجد نبوی ﷺ او ر مسجد حرام میں بھی ممکن حد تک سترے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ لوگوں کے عام تساہل اور تغافل نے وہاں اس مسئلے کی اہمیت کو ختم کردیا ہے۔ جو یکسر غلط ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف، فيه اضطراب وجهالة، وبها أعله المنذري) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا سفيان بن عيينة: حدثني كثير بن كثيرابن الطلب بن أبي وداعة...قال سفيان: كان ابن جريج: أخبرنا عنه [ قال ] : أخبرنا كثير عن أبيه، قال:فسألته؟ فقال: ليس من أبي سمعته، ولكن من بعض أهلي عن جدي.
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ لجهالة شيخ كثير بن كثير بن المطلب بن أبي وداعة، فإنه في رواية سفيان لم يسم، وفي رواية ابن جريج سماه كثيراً والد كثيرلم يوثقه؛ غير ابن حبان، وقال الحافظ: مقبول . يعني: عند المتابعة، وما علمته توبع.والحديث في المسند (6/399) سنداً ومتناً. وقد رواه النسائي وغيره، وهومخرج في سلسلة الأحاديث الضعيفة (928) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
کثیر بن کثیر کے دادا (سیدنا مطلب بن ابی وداعہ ؓ) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو (مسجد الحرام میں) باب بنی سہم کے پاس نماز پڑھتے دیکھا جب کہ لوگ آپ ﷺ کے آگے سے گزر رہے تھے اور ان کے درمیان (رسول اللہ ﷺ اور کعبہ کے مابین) سترہ نہیں تھا۔ سفیان نے بصراحت کہا «ليس بينه وبين الكعبةِ سترةٌ ***» سفیان کہتے ہیں کہ ابن جریج نے اس کی سند میں یوں بیان کیا تھا «أخبرنا كثير ، عن أبيه» یعنی کثیر نے اپنے والد سے بیان کیا، پھر میں نے ان سے (براہ راست) پوچھا تو کہا، میں نے یہ حدیث اپنے والد سے نہیں سنی بلکہ گھر کے کسی دوسرے فرد سے سنی تھی اور اس نے میرے دادا سے روایت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع الصحیح میں (کتاب الصلواة، باب السترہ بمکة، حدیث: 501) اور اس کے ضمن میں حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صریح حدیث سے ثابت کیا ہے۔ کہ سترے کے مسئلے میں مکہ اور غیر مکہ سبھی برابر ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اشارہ ہے کہ مصنف عبدا لرزاق میں باب لايقطع الصلاة بمكة شيئ کی حدیث صحیح نہیں۔ اور وہ یہی ہے جو امام ابودائود رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی ہے۔ (عون المعبود) اس لئے مسجد نبوی ﷺ او ر مسجد حرام میں بھی ممکن حد تک سترے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ لوگوں کے عام تساہل اور تغافل نے وہاں اس مسئلے کی اہمیت کو ختم کردیا ہے۔ جو یکسر غلط ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مطلب بن ابی وداعہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو باب بنی سہم کے پاس نماز پڑھتے دیکھا، لوگ آپ ﷺ کے سامنے سے گزر رہے تھے بیچ میں کوئی سترہ نہ تھا۱؎۔ سفیان کے الفاظ یوں ہیں: ان کے اور کعبہ کے درمیان کوئی سترہ نہ تھا۔ سفیان کہتے ہیں: ابن جریج نے ان کے بارے میں ہمیں بتایا کہ کثیر نے اپنے والد سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا میں نے اسے اپنے والد سے نہیں سنا، بلکہ گھر کے کسی فرد سے سنا اور انہوں نے میرے دادا سے روایت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ حدیث ضعیف ہے، اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا، سترہ کے بارے میں وارد تمام احادیث مطلق اور عام ہیں، ان میں کسی جگہ کی کوئی قید نہیں خواہ صحراء ہو، یا مسجد حتی کہ حرمین شریفین کی مساجد بھی اس حکم سے مستثنی نہیں ہیں، اس لئے ہر جگہ سترہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Kathir b. Kathir b. al-Muttalib b. Abi Wida'ah From his people on the authority of his grand father: He saw that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) was praying at the place adjacent to the gate of Banu Sahm and the people were passing before him, and there was no covering (sutrah) between them. The narrator Sufyan said: There was no covering between him and the Ka'bah. Sufyan said: Ibn Juraij reported us stating that Kathir reported on the authority of his father saying: I did not hear my father say, but I heard some of my people on the authority of my grandfather.