Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Entering The Ka'bah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2030.
منصور حجبی سے مروی ہے کہ مجھے میرے ماموں (مسافع بن شیبہ) نے میری والدہ صفیہ بنت شیبہ سے روایت کیا، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اسلمیہ سے سنا، کہتی تھیں کہ میں نے عثمان (بن طلحہ الحجبی) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب تمہیں بلایا تھا تو کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے فرمایا تھا: ”میں تجھے یہ کہنا بھول گیا تھا کہ دو سینگوں کو ڈھانپ دو، بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیئے جو نمازی کو مشغول کرنے والی ہو۔“ ابن السرح نے اپنی سند میں «حدثني خالي» کے بعد «مسافع بن شيبة» کے نام کی تصریح کی ہے۔
تشریح:
دو سینگوں سے مراد حضرت ابراہیم ؑ کے لئے اسماعیل ؑ کے فدیہ میں آنے والے مینڈھے کے سینگ ہیں۔ جو کعبہ کے اندر محفوظ تھے۔ 2۔ عام قاعدہ ہے کہ نمازی کے آگے ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے۔ جو اس کی نظر یا دل کو مشغول کرنے والی ہو۔ جیسے کہ صحیحین میں حدیث ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی سیاہ منقش چادرکے متعلق ف فرمایا تھا۔ میری یہ خمیصہ چادر ابوجہم کے پاس لے جائو۔ اس نے تو مجھے ابھی نماز میں مشغول کردیا تھا۔ انبجانیۃ۔ (صاف)چادر لے آئو (صحیح بخاری، الصلاة، حدیث 373 و صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 556)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح) .إسناده: حدثنا ابن السرح وسعيد بن منصور ومسدد قالوا: ثنا سفيان عن منصور الحَجَبِي: حدثني خالي عن أمي صفية بنت شيبة.قال ابن السرح: خالي مُسَافعُ بن شَيْبَةَ.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير الأسلمية،وهي صحابية بايعت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وهي أم عثمان ابنة سفيان، وهي أم بني شيبةالأكابر، كما يأتي في رواية لأحمد، وهي التي روت عن ابن عباس حديث: ليس على النساء حلق... ، وقد مضى (1732) .ومنصور: هو ابن عبد الرحمن الحَجَبِي.والحديث أخرجه أحمد (4/68 و 5/380) ، والحميدي (565) قالا: ثنا سفيان... به؛ إلا أنهما قالا: عن صفية بنت شيبة- زاد أحمد- أم منصور-قالت: أخبرتني امرأة من بني سليم ولدت عامة أهل دارنا... زاد أحمد: قال سفيان:لم يزل قرنا الكبش في البيت، حتى احترق البيت، فاحترقا.وخالفه محمد بن عبد الرحمن فقال: عن منصور بن عبد الرحمن عن أمه عن أم عثمان ابنة سفيان، وهي أم بني شيبة الأكابر- قال محمد بن عبد الرحمن-وقد بايعت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دعا شيبة، ففتح، فلما دخل البيت ورجع وفرغ، ورجع شيبة؛إذا رسولُ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أن أجب. فأتاه، فقال: إني رأيت في البيت قرناً فغيِّبْه .قال منصور: فحدثني عبد الله بن مسافع عن أمي عن أم عثمان بنت سفيان:أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال له في الحديث: فإنه لا ينبغي أن يكون في البيت شيء يُلْهي المصلين .أخرجه أحمد.لكن محمد بن عبد الرحمن هذا- وهو أخو منصور بن عبد الرحمن الحجبي-؛قال الدارقطني: متروك .وقد خالفه أخوه في إسناده ومتنه؛ فلا يُعْبَأًُ به.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
منصور حجبی سے مروی ہے کہ مجھے میرے ماموں (مسافع بن شیبہ) نے میری والدہ صفیہ بنت شیبہ سے روایت کیا، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اسلمیہ سے سنا، کہتی تھیں کہ میں نے عثمان (بن طلحہ الحجبی) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب تمہیں بلایا تھا تو کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے فرمایا تھا: ”میں تجھے یہ کہنا بھول گیا تھا کہ دو سینگوں کو ڈھانپ دو، بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیئے جو نمازی کو مشغول کرنے والی ہو۔“ ابن السرح نے اپنی سند میں «حدثني خالي» کے بعد «مسافع بن شيبة» کے نام کی تصریح کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
دو سینگوں سے مراد حضرت ابراہیم ؑ کے لئے اسماعیل ؑ کے فدیہ میں آنے والے مینڈھے کے سینگ ہیں۔ جو کعبہ کے اندر محفوظ تھے۔ 2۔ عام قاعدہ ہے کہ نمازی کے آگے ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے۔ جو اس کی نظر یا دل کو مشغول کرنے والی ہو۔ جیسے کہ صحیحین میں حدیث ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی سیاہ منقش چادرکے متعلق ف فرمایا تھا۔ میری یہ خمیصہ چادر ابوجہم کے پاس لے جائو۔ اس نے تو مجھے ابھی نماز میں مشغول کردیا تھا۔ انبجانیۃ۔ (صاف)چادر لے آئو (صحیح بخاری، الصلاة، حدیث 373 و صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 556)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسلمیہ کہتی ہیں کہ میں نے عثمان ؓ سے پوچھا۱؎: جب رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بلایا تو آپ سے کیا کہا؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہیں یہ بتانا بھول گیا کہ مینڈھے۲؎ کی دونوں سینگوں کو چھپا دو اس لیے کہ کعبہ میں کوئی چیز ایسی رہنی مناسب نہیں ہے جو نماز پڑھنے والے کو غافل کر دے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : عثمان سے مراد عثمان بن طلحہ حجبی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ۲؎ : اس دنبہ کی سینگیں جس کو اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ذبح کرنے کے لئے جبریل علیہ السلام لے آئے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al-Aslamiyyah said: I said to 'Uthman ibn Talhah al-Hajabi): What did the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say to you when he called you? He said: (The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said:) I forgot to order you to cover the two horns (of the lamb), for it is not advisable that there should be anything in the House (the Ka'bah) which diverts the attention of the man at prayer. Ibn as-Sarh said: The name of my maternal uncle is Musafi' ibn Shaybah.