Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: The Prohibition Of Marrying Women Who Do Not Give Birth)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2049.
امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ حسین بن حریث مروزی نے مجھے لکھ بھیجا کہ۔ ہمیں فضل بن موسیٰ نے حسین بن واقد سے، انہوں نے عمارہ بن ابی حفصہ سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے، سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا: میری بیوی کسی چھونے والے کا ہاتھ رد نہیں کرتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے دور کر دو (طلاق دے دو)۔“ اس نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ میرا دل اس کے ساتھ لگا رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تب اس سے فائدہ اٹھاؤ۔“
تشریح:
یہ حدیث صحیح ہے۔ اور یہ جملہ (لاتمنع يد لامس) کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان باوقار اور باغیر ت خاتون ہونے کے ناطے اس کے اندر غیروں سے کوئی نفرت ووحشت نہیں ہے۔ (مگر فعلا ً اس سے کوئی بدکاری صادرنہیں ہوئی) تو نبیﷺ نے اولاً اسے طلاق دینے کا فرمایا۔ مگر شوہر نے اپنی کیفیت بتائی تو رخصت دے دی جیسے کہ دین سے دور معاشروں میں ایسی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ مگر یہ معنی کرنا کہ وہ فعلاً بدکار تھی۔ پھر نبی کریمﷺ نے ا س کو گھر میں رکھنے کی اجازت دے دی۔ ایک ناقابل تصور معنی ہے۔ کیونکہ زانیہ سے نکاح حرام ہے۔اور ایسا انسان جو اپنے اہل میں فحش کاری پرخاموش ہو دیوث ہوتا ہے۔ اسی لئے کچھ محدثین نے اس کا وہی مفہوم بیان کیا ہے۔ جو ہم نے شروع میں بیان کیا ہے۔ بہرحال بُری عادات کی بنا پر عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے۔ یہ حدیث اس باب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اگلی حدیث اس باب کے مطابق ہے۔ اس حدیث پر باب سہواً رہ گیا ہے یا کسی ناسخ (نقل کرنے والے) سے کوئی سہو ہوگیا ہے۔ واللہ اعلم
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وقال الحافظ ابن كثير: إسناده جيد ، وأطلق النووي عليه الصحة) . إسناده: قال أبو داود: كتب إليَّ حسين بن حُرَيْثٍ المَرْوَزِيّ: ثنا الفضل بن موسى عن الحسين بن واقد عن عُمَارة بن أبي حفصة عن عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ غير الحسين بن واقد، فهو على شرط مسلم، وأخرج له البخاري تعليقاً، وهو صدوق له أوهام لا يضر الاحتجاج به، ولهذا قال ابن كثير في التفسير، (3/164) : وهذا الإسناد جيد . وقال المنذري في مختصره (3/6) : ورجال إسناده محتج بهم في الصحيحين على الاتفاق والانفراد. وذكر الدارقطني أن الحسين بن واقد تفرد به عن عمارة بن أبي حفصة، وأن الفضل بن موسى تفرد به عن الحسين بن واقد . والحديث أخرجه البيهقي (7/154) من طريق المصنف. ثم أخرجه من طريق أبي عبد الله الصفار الوَزَّان: ثنا الحسين بن حريث... به. وكذلك أخرجه النسائي (2/104) : أخبرنا الحسين بن حريث... به. وله طريق أخرى عن ابن عباس، يرويه حماد بن سلمة وغيره عن هارون بن رِئَاب عن عبد الله بن عبيد بن عمير. وعبد الكريم عن عبد الله بن عبيد بن عمير عن ابن عباس- عبد الكريم يرفعه إلى ابن عباس، وهارون لم يرفعه- قالا... فذكره. أخرجه النسائي (2/72) ، والبيهقي (7/154) ؛إلا أنه لم يذكر: وغيره. وقال النسائي: هذا الحديث ليس بثابت، وعبد الكريم ليس بالقوي، وهارون بن رئاب أثبت منه، وقد أرسل الحديث، وهارون ثقة، وحديثه أولى بالصواب من حديث عبد الكريم . وقال البيهقي: ورواه ابن عيينة عن هارون بن رئاب مرسلاً . وحديث حماد عن عبد الكريم: أخرجه ابن أبي شيبة (4/183) .
قلت: ثم رواه النسائي (2/104) من طريق النضر بن شمَيْل: حدثنا حماد ابن سلمة قال: أنبأنا هارون بن رئاب عن عبد الله بن عبيد بن عمير عن ابن عباس... به، وقال: هذا خطأ، والصواب مرسل !
قلت: ولعل ذلك لرواية ابن عيينة المرسلة أيضاً؛ فهي ترجح رواية حماد الأولى المرسلة! وهي على كل حال صحيحة الإسناد، فهي شاهد قوي لحديث الباب. وله شاهد آخر موصول، يرويه أبو الزبير عن جابر... مرفوعاً: رواه البيهقي. ورجاله ثقات، وكأنه لذلك قال الحافظ: في التلخيص (3/225) : وأطلق النووي عليه الصحة .
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ حسین بن حریث مروزی نے مجھے لکھ بھیجا کہ۔ ہمیں فضل بن موسیٰ نے حسین بن واقد سے، انہوں نے عمارہ بن ابی حفصہ سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے، سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا: میری بیوی کسی چھونے والے کا ہاتھ رد نہیں کرتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے دور کر دو (طلاق دے دو)۔“ اس نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ میرا دل اس کے ساتھ لگا رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تب اس سے فائدہ اٹھاؤ۔“
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث صحیح ہے۔ اور یہ جملہ (لاتمنع يد لامس) کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان باوقار اور باغیر ت خاتون ہونے کے ناطے اس کے اندر غیروں سے کوئی نفرت ووحشت نہیں ہے۔ (مگر فعلا ً اس سے کوئی بدکاری صادرنہیں ہوئی) تو نبیﷺ نے اولاً اسے طلاق دینے کا فرمایا۔ مگر شوہر نے اپنی کیفیت بتائی تو رخصت دے دی جیسے کہ دین سے دور معاشروں میں ایسی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ مگر یہ معنی کرنا کہ وہ فعلاً بدکار تھی۔ پھر نبی کریمﷺ نے ا س کو گھر میں رکھنے کی اجازت دے دی۔ ایک ناقابل تصور معنی ہے۔ کیونکہ زانیہ سے نکاح حرام ہے۔اور ایسا انسان جو اپنے اہل میں فحش کاری پرخاموش ہو دیوث ہوتا ہے۔ اسی لئے کچھ محدثین نے اس کا وہی مفہوم بیان کیا ہے۔ جو ہم نے شروع میں بیان کیا ہے۔ بہرحال بُری عادات کی بنا پر عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے۔ یہ حدیث اس باب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اگلی حدیث اس باب کے مطابق ہے۔ اس حدیث پر باب سہواً رہ گیا ہے یا کسی ناسخ (نقل کرنے والے) سے کوئی سہو ہوگیا ہے۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میری عورت کسی ہاتھ لگانے والے کو نہیں روکتی آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے اپنے سے جدا کر دو۔“ اس شخص نے کہا: مجھے ڈر ہے میرا دل اس میں لگا رہے گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA) : A man came to the Prophet (ﷺ), and said: My wife does not prevent the hand of a man who touches her. He said: Divorce her. He then said: I am afraid my inner self may covet her. He said: Then enjoy her.