تشریح:
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خیبر کے یہودی سردار حی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں۔ اورفتح خیبر کے موقع پر مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوگئی تھی۔ جب قیدی عورتیں جمع کی گیئں۔ تو حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریمﷺکی خدمت میں آکر عرض کیا۔ اے اللہ کے نبی ﷺمجھے قیدی عورتوں میں سے ایک لونڈی دے دیجئے۔ آپﷺ نےفرمایا جائو ایک لونڈی لے لو۔ انہوں نے جا کر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منتخب کرلیا۔ اس پر ایک آدمی نے آپﷺ کے پا س آکر عرض کیا۔ اے اللہ کے نبیﷺ آپ نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کی سیدہ صفیہ کو دحیہ کے حوالے کردیا۔ حالانکہ صرف وہ آپ ﷺکے شایان شان ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا دحیہ کو صفیہ سمیت بلائو۔ حضرت وحیہ ان کو ساتھ لئے ہوئے حاضر ہوئے۔ آپ ﷺنے انھیں دیکھ کر حضرت وحیہ سے فرمایا قیدیوں میں سے کوئی دوسری لونڈی لےلو۔ پھر آپ ﷺنے حضرت صفیہ پرالسلام پیش کیا۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اس کے بعد آپ نے انہیں آزاد کرکے آپﷺنے ان سے شادی کرلی۔ اور ان کی آذادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔ مدینہ واپسی میں صد صہبا پہنچ کر وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ اس کے بعد ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں آپﷺکےلئے آراستہ کیا۔ اور رات کو آپﷺکے پاس بھیج دیا۔ آپ ﷺنے دولہے کی حیثیت سے ان کے ہمراہ صُبح کی۔ اور کھجور اور گھی اور ستو ملا کر ولیمہ کھلایا۔ اور راستے میں تین روز شبہائے عروسی کے طور پر ان کے پاس قیام فرمایا۔ اس موقع پر آپﷺنے ان کے چہرے پر ہرا نشان دیکھا دریافت فرمایا یہ کیا ہے۔ کہنے لگیں۔ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند اپنی جگہ سے ٹوٹ کر میری آغوش میں آکر گرا ہے۔ بخدا مجھے آپ ﷺکے معاملے کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔ لیکن میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا۔ تو اس نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا یہ بادشاہ جو مدینہ میں ہے تم اس کی آرزو کررہی ہو (الرحیق المختوم)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي) . إسناده: حدثا عمرو بن عون: أخبرنا أبو عوانة عن قتادة وعبد العزيز بن صهيب عن أنس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه مسلم: حدثنا قتيبة: حدثنا أبو عوانة... به. وأخرجه هو، والبخاري وغيرهما من طرق أخرى عن عبد العزيز... به. وهو مخرج في الإرواء (1825) .