باب: اپنی ہی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لینے کا اجر
)
Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: A Man Frees His Slave And Then Marries Her)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2054.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صفیہ ؓ کو آزاد فرمایا (اور پھر اپنے حرم میں داخل کرنے کا شرف بخشا) اور ان کے آزاد کرنے ہی کو ان کا حق مہر ٹھہرایا۔
تشریح:
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خیبر کے یہودی سردار حی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں۔ اورفتح خیبر کے موقع پر مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوگئی تھی۔ جب قیدی عورتیں جمع کی گیئں۔ تو حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریمﷺکی خدمت میں آکر عرض کیا۔ اے اللہ کے نبی ﷺمجھے قیدی عورتوں میں سے ایک لونڈی دے دیجئے۔ آپﷺ نےفرمایا جائو ایک لونڈی لے لو۔ انہوں نے جا کر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منتخب کرلیا۔ اس پر ایک آدمی نے آپﷺ کے پا س آکر عرض کیا۔ اے اللہ کے نبیﷺ آپ نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کی سیدہ صفیہ کو دحیہ کے حوالے کردیا۔ حالانکہ صرف وہ آپ ﷺکے شایان شان ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا دحیہ کو صفیہ سمیت بلائو۔ حضرت وحیہ ان کو ساتھ لئے ہوئے حاضر ہوئے۔ آپ ﷺنے انھیں دیکھ کر حضرت وحیہ سے فرمایا قیدیوں میں سے کوئی دوسری لونڈی لےلو۔ پھر آپ ﷺنے حضرت صفیہ پرالسلام پیش کیا۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اس کے بعد آپ نے انہیں آزاد کرکے آپﷺنے ان سے شادی کرلی۔ اور ان کی آذادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔ مدینہ واپسی میں صد صہبا پہنچ کر وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ اس کے بعد ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں آپﷺکےلئے آراستہ کیا۔ اور رات کو آپﷺکے پاس بھیج دیا۔ آپ ﷺنے دولہے کی حیثیت سے ان کے ہمراہ صُبح کی۔ اور کھجور اور گھی اور ستو ملا کر ولیمہ کھلایا۔ اور راستے میں تین روز شبہائے عروسی کے طور پر ان کے پاس قیام فرمایا۔ اس موقع پر آپﷺنے ان کے چہرے پر ہرا نشان دیکھا دریافت فرمایا یہ کیا ہے۔ کہنے لگیں۔ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند اپنی جگہ سے ٹوٹ کر میری آغوش میں آکر گرا ہے۔ بخدا مجھے آپ ﷺکے معاملے کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔ لیکن میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا۔ تو اس نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا یہ بادشاہ جو مدینہ میں ہے تم اس کی آرزو کررہی ہو (الرحیق المختوم)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي) . إسناده: حدثا عمرو بن عون: أخبرنا أبو عوانة عن قتادة وعبد العزيز بن صهيب عن أنس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه مسلم: حدثنا قتيبة: حدثنا أبو عوانة... به. وأخرجه هو، والبخاري وغيرهما من طرق أخرى عن عبد العزيز... به. وهو مخرج في الإرواء (1825) .
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
سیدنا انس بن مالک ؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صفیہ ؓ کو آزاد فرمایا (اور پھر اپنے حرم میں داخل کرنے کا شرف بخشا) اور ان کے آزاد کرنے ہی کو ان کا حق مہر ٹھہرایا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خیبر کے یہودی سردار حی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں۔ اورفتح خیبر کے موقع پر مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوگئی تھی۔ جب قیدی عورتیں جمع کی گیئں۔ تو حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریمﷺکی خدمت میں آکر عرض کیا۔ اے اللہ کے نبی ﷺمجھے قیدی عورتوں میں سے ایک لونڈی دے دیجئے۔ آپﷺ نےفرمایا جائو ایک لونڈی لے لو۔ انہوں نے جا کر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منتخب کرلیا۔ اس پر ایک آدمی نے آپﷺ کے پا س آکر عرض کیا۔ اے اللہ کے نبیﷺ آپ نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کی سیدہ صفیہ کو دحیہ کے حوالے کردیا۔ حالانکہ صرف وہ آپ ﷺکے شایان شان ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا دحیہ کو صفیہ سمیت بلائو۔ حضرت وحیہ ان کو ساتھ لئے ہوئے حاضر ہوئے۔ آپ ﷺنے انھیں دیکھ کر حضرت وحیہ سے فرمایا قیدیوں میں سے کوئی دوسری لونڈی لےلو۔ پھر آپ ﷺنے حضرت صفیہ پرالسلام پیش کیا۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اس کے بعد آپ نے انہیں آزاد کرکے آپﷺنے ان سے شادی کرلی۔ اور ان کی آذادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔ مدینہ واپسی میں صد صہبا پہنچ کر وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ اس کے بعد ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں آپﷺکےلئے آراستہ کیا۔ اور رات کو آپﷺکے پاس بھیج دیا۔ آپ ﷺنے دولہے کی حیثیت سے ان کے ہمراہ صُبح کی۔ اور کھجور اور گھی اور ستو ملا کر ولیمہ کھلایا۔ اور راستے میں تین روز شبہائے عروسی کے طور پر ان کے پاس قیام فرمایا۔ اس موقع پر آپﷺنے ان کے چہرے پر ہرا نشان دیکھا دریافت فرمایا یہ کیا ہے۔ کہنے لگیں۔ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند اپنی جگہ سے ٹوٹ کر میری آغوش میں آکر گرا ہے۔ بخدا مجھے آپ ﷺکے معاملے کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔ لیکن میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا۔ تو اس نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا یہ بادشاہ جو مدینہ میں ہے تم اس کی آرزو کررہی ہو (الرحیق المختوم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین صفیہ ؓ کو آزاد کیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas (RA) bin ‘Malik said “The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) manumitted Safiyyah and made her manumission her dower.