Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding Breastfeeding An Adult)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2058.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں آئے تو دیکھا کہ ان کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہے۔ (بروایت حفص) آپ ﷺ کو یہ کیفیت ناگوار گزری اور آپ ﷺ کا چہرہ بدل گیا۔ (حفص اور محمد بن کثیر دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ) سیدہ عائشہ ؓ نے (وضاحت کرتے ہوئے) کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ذرا غور کر لیا کرو، تمہارے بھائی کون ہیں۔ رضاعت وہی معتبر ہے جو بھوک کی بنا پر ہو۔“
تشریح:
یعنی رضاعت فی الحقیقت وہی معتبر ہے کہ بچے نے اپنی دودھ پینے کی عمر میں دودوھ پیا ہو، اسی سے حرمت ثابت ہوتی ہے دوسال کے بعد بچہ روٹی سالن اور دیگر خوراک سے اپنی بھوک مٹانے لگتا ہے، اس لیے جمہور کے نزدیک اس وقت دودھ پینے کا اعتبار نہیں۔ علاوہ ازیں رضاعت وہی معتبر ہے جو بھوک کی بنا پر ہو کا مطلب ہے بچے نے دودھ اتنی مقدار میں پیا ہو کہ جس سے اس کی بھوک مٹ گئی ہو اور اس کی وضاحت دسوری حدیث میں اس طرح ہے کہ وہ پانچ مرتبہ دودھ پیے وہ یوں کہ پستان منہ میں لے کر دودھ پیتا رہے اور پھر اسے اپنی مرضی سے چھوڑے۔ یہ ایک مرتبہ پینا (ایک رضعہ) ہے۔ اس طرح پانچ رضعات سے رضاعت سے ثابت ہوگی۔ ایک دو رضعوں سے نہیں (تفصیل کےلیے دیکھیئے: ضمیمہ تفسیر احس البیان بعنوان رضاعت کے چند ضروری مسائل، از حافظ صلاح الدین یوسف)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه ابن الجارود) . إسناده: حدثنا حفص بن عمر: ثنا شعبة. (ح) وثنا محمد بن كثير: أخبرنا سفيان عن أشعث بن سُلَيْم عن أبيه عن مسروق عن عائشة- المعنى واحد-: أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات، وهو من الوجه الأول على شرط البخاري، ومن الوجه الآخر على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (5/194) ... بإسناد المصنف الآخر. وأخرجه مسلم (4/170) ، وابن الجارود (691) ، وابن أبي شيبة (4/285) ، وأحمد (6/138 و 214) من طرق أخرى عن سفيان- وهو الثوري-... به. ثم أخرجه البخاري (9/120- 121) ، ومسلم، وأحمد (6/94) من طرق أخرى عن شعبه... به. ومسلم أيضاً، والنسائي (2/83) ، وسعيد بن منصور (3/1/234) ، والبيهقي (7/456) من حديث أبي الأحوص عن أشعث بن أبي الشعثاء... به.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں آئے تو دیکھا کہ ان کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہے۔ (بروایت حفص) آپ ﷺ کو یہ کیفیت ناگوار گزری اور آپ ﷺ کا چہرہ بدل گیا۔ (حفص اور محمد بن کثیر دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ) سیدہ عائشہ ؓ نے (وضاحت کرتے ہوئے) کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ذرا غور کر لیا کرو، تمہارے بھائی کون ہیں۔ رضاعت وہی معتبر ہے جو بھوک کی بنا پر ہو۔“
حدیث حاشیہ:
یعنی رضاعت فی الحقیقت وہی معتبر ہے کہ بچے نے اپنی دودھ پینے کی عمر میں دودوھ پیا ہو، اسی سے حرمت ثابت ہوتی ہے دوسال کے بعد بچہ روٹی سالن اور دیگر خوراک سے اپنی بھوک مٹانے لگتا ہے، اس لیے جمہور کے نزدیک اس وقت دودھ پینے کا اعتبار نہیں۔ علاوہ ازیں رضاعت وہی معتبر ہے جو بھوک کی بنا پر ہو کا مطلب ہے بچے نے دودھ اتنی مقدار میں پیا ہو کہ جس سے اس کی بھوک مٹ گئی ہو اور اس کی وضاحت دسوری حدیث میں اس طرح ہے کہ وہ پانچ مرتبہ دودھ پیے وہ یوں کہ پستان منہ میں لے کر دودھ پیتا رہے اور پھر اسے اپنی مرضی سے چھوڑے۔ یہ ایک مرتبہ پینا (ایک رضعہ) ہے۔ اس طرح پانچ رضعات سے رضاعت سے ثابت ہوگی۔ ایک دو رضعوں سے نہیں (تفصیل کےلیے دیکھیئے: ضمیمہ تفسیر احس البیان بعنوان رضاعت کے چند ضروری مسائل، از حافظ صلاح الدین یوسف)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، ان کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، (حفص کی روایت میں ہے) آپ ﷺ کو یہ بات ناگوار گزری، آپ کا چہرہ متغیر ہو گیا (پھر حفص اور شعبہ دونوں کی روایتیں متفق ہیں) عائشہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول یہ تو میرا رضاعی بھائی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھی طرح دیکھ لو کون تمہارے بھائی ہیں؟ کیونکہ رضاعت تو غذا سے ثابت ہوتی ہے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی حرمت اس رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو بچپن کی ہو اور دودھ ہی اس کی غذا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aishah (RA) said the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) visited her when a man was with her. The narrator Hafs said “this grieved him and he frowned”. The agreed version then goes, She said “He is my foster brother Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم)”. He said “Consider, who are you brethren, for fosterage is consequent on hunger”.