Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding Shighar Marriages)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2075.
عبدالرحمٰن بن ہرمزالاعرج بیان کرتے ہیں کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمٰن بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کر دیا اور دونوں نے اس نکاح ہی کو حق مہر ٹھہرایا تھا۔ تو سیدنا معاویہ ؓ نے مروان کو یہ حکم لکھ بھیجا کہ وہ ان کے مابین تفریق کرا دے۔ انہوں نے اپنے خط میں کہا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
1 (وکا نا جعلا صداقا) میں (جعلا) کا مفعول اول محذوف ہے جیسے کہ مواردالظمان الی زوئد ابن حبان کی اسی روایت کے الفاظ میں صراحت ہے (وقد کان جعلاہ صداقا)(مواردالظمان، باب ماجاء في الشعار، حدیث:1268 ) اس بات سے واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت معاویہ کے حکم تفریق کی وجہ مشروط نکاح ہی کو حق مہر قرار دینا تھا، نہ کہ حق مہر مقرر کر دینے کے باوجود تبادلہ اختین یا بنتین۔ 2: نکاح شغارکے ممنوع ہونے پر سب کا اتفاق ہے اگر کوئی کرے تو شافعی ؒاسے باطل کہتے ہیں۔ احمد اسحق اور ابو عبید ؒ سے بھی یہی مروی ہے امام مالک ؒ کا قول ہے کہ اسے فسخ کرا دیا جائے، خواہ دخول ہوا ہوجبکہ ان کا یاک قول یہ بھی ہے کہ قبل ازخول فسخ کرا دیا جائے نہ کہ بعد از دخول اور ایک جماعت علماء کے بقول مہر مثل ادا کرنے سے صحیح ہو جائے گا۔ امام ابو حنیفہ ؒ کا یہی مذہب ہے عطا، زہری اور لیثؒ سے بھی ایسے ہی منقول ہے احمد اور اسحق ؒ کی ایک روایت اسی طرح ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وصححه ابن حبان) . إسناده: حدثنا محمد بن يحيى بن فارس: ثنا يعقوب بن إبراهيم: حدثنا أبي عن ابن إسحاق: حدثني عبد الرحمن بن هُرْمزٍ الأعرج.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ غير ابن إسحاق، وهو حسن الحديث إذا صرح بالتحديث، كما هنا، ولذلك صححه ابن حبان، وقد خرجته في المصدر الآنف الذكر (1896)
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
عبدالرحمٰن بن ہرمزالاعرج بیان کرتے ہیں کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمٰن بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کر دیا اور دونوں نے اس نکاح ہی کو حق مہر ٹھہرایا تھا۔ تو سیدنا معاویہ ؓ نے مروان کو یہ حکم لکھ بھیجا کہ وہ ان کے مابین تفریق کرا دے۔ انہوں نے اپنے خط میں کہا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1 (وکا نا جعلا صداقا) میں (جعلا) کا مفعول اول محذوف ہے جیسے کہ مواردالظمان الی زوئد ابن حبان کی اسی روایت کے الفاظ میں صراحت ہے (وقد کان جعلاہ صداقا)(مواردالظمان، باب ماجاء في الشعار، حدیث:1268 ) اس بات سے واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت معاویہ کے حکم تفریق کی وجہ مشروط نکاح ہی کو حق مہر قرار دینا تھا، نہ کہ حق مہر مقرر کر دینے کے باوجود تبادلہ اختین یا بنتین۔ 2: نکاح شغارکے ممنوع ہونے پر سب کا اتفاق ہے اگر کوئی کرے تو شافعی ؒاسے باطل کہتے ہیں۔ احمد اسحق اور ابو عبید ؒ سے بھی یہی مروی ہے امام مالک ؒ کا قول ہے کہ اسے فسخ کرا دیا جائے، خواہ دخول ہوا ہوجبکہ ان کا یاک قول یہ بھی ہے کہ قبل ازخول فسخ کرا دیا جائے نہ کہ بعد از دخول اور ایک جماعت علماء کے بقول مہر مثل ادا کرنے سے صحیح ہو جائے گا۔ امام ابو حنیفہ ؒ کا یہی مذہب ہے عطا، زہری اور لیثؒ سے بھی ایسے ہی منقول ہے احمد اور اسحق ؒ کی ایک روایت اسی طرح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن اسحاق سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن ہرمزاعرج نے مجھ سے بیان کیا کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبدالرحمٰن بن حکم سے کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس سے کر دیا اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے سے اپنی بیٹی کے شادی کرنے کو اپنی بیوی کا مہر قرار دیا تو معاویہ نے مروان کو ان کے درمیان جدائی کا حکم لکھ کر بھیجا اور اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ یہی وہ نکاح شغار ہے جس سے اللہ کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdur Rahman ibn Hurmuz al-A'raj said: Al-Abbas ibn Abdullah ibn al-Abbas married his daughter to 'Abdur Rahman ibn al-Hakam, and Abdur Rahman married his daughter to him. And they made this (exchange) their dower. Mu'awiyah wrote to Marwan commanding him to separate them. He wrote in his letter: This is the shighar which the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) has forbidden.