باب: آیت کریمہ : «لا يحل لكم أن ترثوا النساء كرها ولا تعضلوهن»
)
Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding Allah's Statement: It Is Not Permitted For You To Inherity Women Against Their Will... And Do Not Prevent Them From Re-Marrying)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2090.
سیدنا ابن عباس ؓ سے آیت کریمہ {لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ} کی تفسیر میں مروی ہے کہ آدمی اپنے قریبی کہ وراثت میں اس کی بیوی کا بھی وارث بن جاتا تھا اور اسے روکے رکھتا تاآنکہ وہ مر جاتی یا اسے اپنا حق مہر واپس کرتی تو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس عمل سے منع فرما دیا۔
تشریح:
(حکم اللہ عن ذلك) کے معنی ہیں، اللہ نے اس سے روک دیا کہتے ہیں (احکمت فلانا۔۔۔۔۔) میں نے اسے روک دیا اسی طرح حاکم کو بھی حاکم اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ظلم سے روکتا ہے۔ (النھایة لابن الاثير)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن) . إسناده: حدثنا أحمد بن محمد بن ثابت المَرْوَزِي: حدثني علي بن حسين ابن واقد عن أبيه عن يزيد النَّحْوِيَ عن عكرمة عن ابن عباس قال...
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير المروزي- وهو أبو الحسن بن شَبَّويهِ الآتي في الإسناد بعده-، وهو ثقة. وفي علي بن حسين وأبيه كلام يسير من قبل حفظهما، لا ينزل به حديثهما عن مرتبة الحسن. فَجَزْمُ المنذري هنا- وفي الحديث الآتي برقم (1974) - بأنه ضعيف! مردود. والحديث تفرد به المصنف عن بقية الستة، كما أفاده ابن كثير في تفسيره للآية. وقول المنذري عنه: وأخرجه البخاري والنسائي ! إنما يعني: الحديث الذي قبله؛ وإلا فهو خطأ؛ فتنبَّه! وأخرجه ابن جرير (8871) من طريق أخرى عن الحسن بن واقد... به؛ لم يجاوز به عكرمة، وقرن معه: الحسن البصري.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
سیدنا ابن عباس ؓ سے آیت کریمہ {لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ} کی تفسیر میں مروی ہے کہ آدمی اپنے قریبی کہ وراثت میں اس کی بیوی کا بھی وارث بن جاتا تھا اور اسے روکے رکھتا تاآنکہ وہ مر جاتی یا اسے اپنا حق مہر واپس کرتی تو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس عمل سے منع فرما دیا۔
حدیث حاشیہ:
(حکم اللہ عن ذلك) کے معنی ہیں، اللہ نے اس سے روک دیا کہتے ہیں (احکمت فلانا۔۔۔۔۔) میں نے اسے روک دیا اسی طرح حاکم کو بھی حاکم اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ظلم سے روکتا ہے۔ (النھایة لابن الاثير)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آیت کریمہ: {لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ} ”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو تم انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔“ (سورۃ البقرہ: ۲۳۲) کے متعلق مروی ہے کہ ایسا ہوتا تھا کہ آدمی اپنی کسی قرابت دار عورت کا وارث ہوتا تو اسے دوسرے سے نکاح سے روکے رکھتا یہاں تک کہ وہ یا تو مر جاتی یا اسے اپنا مہر دے دیتی تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں حکم نازل فرما کر ایسا کرنے سے منع کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas (RA) explained the Qur’anic verse It is not lawful for you forcibly to inherit the woman (of your deceased kinsmen) nor (that) ye should put constraint upon them that ye may take away a part of that which ye have given them, unless they be guilty of flagrant lewdness and said “This means that a man used to inherit a relative woman. He prevented her from marriage till she died or returned her dower to her. Hence, Allah prohibited that practice.