Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Seeking The Girl's Permission)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2094.
محمد بن عمرو نے یہ حدیث اپنی سند سے روایت کی اور اس نے کہا «فإن بكت أو سكتت» ”اگر وہ رو پڑے یا خاموش رہے۔“ اس نے «بكت» کے لفظ کا اضافہ کیا (رو پڑے۔) امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ «بكت» محفوظ نہیں، وہم ہے جو ابن ادریس سے ہوا ہے یا محمد بن علاء سے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابوعمرو ذکوان نے سیدہ عائشہ ؓ سے روایت کیا، وہ کہتی ہیں کہ (میں نے کہا) اے ﷲ کے رسول! کنواری لڑکی تو بات کرنے سے حیاء کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس کا خاموشی رہنا ہی اس کا اقرار ہے۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: وصله ابن أبي شيبة عنه، وإسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه بمعناه، ووصله أحمد من حديث ابن عباس بلفظ: وصُمَاتُها إقرارها . وصححه ابن حبان) . إسناده: معلق كما ترى، وقد وصله جماعة؛ منهم ابن أبي شيبة في المصنف (4/136) : نا عبد الله بن إدريس عن ابن جريج عن ابن [أبي] مليكة عن أبي عمرو... به مرفوعاً بلفظ: تُسْتَأًْمَرُ النساء في أبضاعهن . قالت: قلت: يا رسول الله! إنهن يَسْتَحْيِينَ؟ قال: الأيم أحق بنفسها، والبِكْرُ تُستأمر، فسكوتها إقرارها . وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه وغيرهما بنحوه، وهو مخرج في الإرواء (1833) . وله شاهد من حديث ابن عباس... نحوه بلفظ. وصماتها إقرارها . أخرجه ابن أبي شيبة وأحمد (1/274) ، وابن حبان (1241) . وقد أخرجه المصنف وغيره بنحوه، ويأتي بعد حديث.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
محمد بن عمرو نے یہ حدیث اپنی سند سے روایت کی اور اس نے کہا «فإن بكت أو سكتت» ”اگر وہ رو پڑے یا خاموش رہے۔“ اس نے «بكت» کے لفظ کا اضافہ کیا (رو پڑے۔) امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ «بكت» محفوظ نہیں، وہم ہے جو ابن ادریس سے ہوا ہے یا محمد بن علاء سے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابوعمرو ذکوان نے سیدہ عائشہ ؓ سے روایت کیا، وہ کہتی ہیں کہ (میں نے کہا) اے ﷲ کے رسول! کنواری لڑکی تو بات کرنے سے حیاء کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس کا خاموشی رہنا ہی اس کا اقرار ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی محمد بن عمرو سے اسی طریق سے یہی حدیث یوں مروی ہے اس میں «فإن بكت أو سكتت» ”اگر وہ رو پڑے یا چپ رہے“ یعنی «بكت» (رو پڑے) کا اضافہ ہے، ابوداؤد کہتے ہیں «بكت» (رو پڑے) کی زیادتی محفوظ نہیں ہے یہ حدیث میں وہم ہے اور یہ وہم ابن ادریس کی طرف سے ہے یا محمد بن علاء کی طرف سے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابوعمرو ذکوان نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے اس میں ہے انہوں نے کہا اللہ کے رسول! باکرہ تو بولنے سے شرمائے گی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کی خاموشی ہی اس کی رضا مندی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The aforesaid tradition has also been transmitted through a different chain of narrators by Muhammad bin ‘Amr. This version adds “If she weeps or keeps silence”. The narrator added the word “weeps”. Abu Dawudرحمۃ اللہ علیہ said: The word "weeps" is not guarded. This is a misunderstanding of the tradition on the part of the narrator Ibn Idris or Muhammad b. al-'Ata. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This tradition has also been narrated by Abu 'Amr Dhakwan on the authority of 'Aishah who said: A virgin is ashamed of speaking, Messenger of Allah. He said: Her silence is her acceptance.