Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding Widowed And Divorced Women)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2100.
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ولی کو بیوہ کے معاملے میں کوئی دخل حاصل نہیں ہے۔ اور یتیم لڑکی سے مشورہ کیا جائے اور اس کی خاموشی اس کا اقرار ہے۔“
تشریح:
بیوہ جہاں کا عندیہ دے، ولی کے لئے وہیں نکاح کرنا زیادہ مستحسن ہے بشرطیکہ کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصححه ابن حبان) . إسناده: حدثنا الحسن بن علي: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا معمر عن صالح بن كَيْسَانَ عن نافع بن جُبَيْرِ بن مُطْعِمِ عن ابن عباس أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال...
قلت: وهذا إسناد ظاهره الصحة؛ فإن رجاله ثقات كلهم رجال الشيخين؛ لكنه قد أُعِلَّ بالانقطاع كما يأتي. والحديث في مصنف عبد الرزاق (10299) ... بإسناده ومتنه. وأخرجه البيهقي (7/118) من طريق المصنف. ثم أخرجه هو، والنسائي (2/78) ، والدارقطني (ص 389) من طرق أخرى عن عبد الرزاق... به. وتابعه ابن المبارك عن معمر... به: أخرجه ابن حبان (1241) ، والدارقطني والبيهقي، وأعلاه بالانقطاع، واستدلا على ذلك برواية ابن إسحاق: حدثني صالح بن كيسان عن عبد الله بن الفضل بن عباس بن ربيعة عن نافع بن جُبَيْرِ بن مطْعِمٍ... به نحوه. أخرجه النسائي والدارقطني والبيهقي، وأحمد (1/261) . وتابعه سعيد بن سلمة بن أبي الحسام: نا صالح بن كيسان... به. فاتصل المسند، وصح الحديث، والحمد لله. وهو في المعنى كالروايات التي قبله.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ولی کو بیوہ کے معاملے میں کوئی دخل حاصل نہیں ہے۔ اور یتیم لڑکی سے مشورہ کیا جائے اور اس کی خاموشی اس کا اقرار ہے۔“
حدیث حاشیہ:
بیوہ جہاں کا عندیہ دے، ولی کے لئے وہیں نکاح کرنا زیادہ مستحسن ہے بشرطیکہ کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طاؤس سے روایت ہے کہ ابوصہباء نے ابن عباس ؓ سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کے زمانے میں نیز عمر ؓ کے دور خلافت کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا ؟ ابن عباس ؓ نے جواب دیا : ہاں ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) said: A guardian has no concern with a woman previously married and has no husband, and an orphan girl (i.e. virgin) must be consulted, her silence being her acceptance.