Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding A Small Dowry)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2109.
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف ؓ پر زغفران کے نشانات دیکھے۔ تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”مہر کتنا دیا ہے؟“ کہا کہ گٹھلی کے وزن کے برابر سونا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کا ہو۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں ایک ”نواة“ (گٹھلی) پانچ درہم کے برابر ہوتی ہے اور نش بیس درہم کا اور اوقیہ چالیس درہم کا۔
تشریح:
1: انسان کو اپنی اسطاعت کے مطابق حق مہر باندھنا چاہیے جو لینا دینا آسان ہو۔ 2: زعفران اور دیگر رنگدار چیزیں (پاوڈر) مردوں کو استعمال کر نا جائز نہیں۔ 3: شادی یا غمی کے موقع پر بھی قریب وبعید کے عزیزواقارب کو بلا کسی اہم مقصد کے جمع کرنا کوئی سنت نہیں ہے ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے ہوئے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی شادی ہوئی اور رسول ﷺکو خبر نہیں دی گئی۔ 4: اصل سنت ولیمہ ہے حسب استطاعت جو میسر آئے بکری ہو یا کم و پیش کچھ اور جیسے کہ رسول ﷺنے سیدہ صفیہ رضی اللہ کے ولیمہ میں ستو ہی پیش فرمائے تھے۔ 5: اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری شادیاں، سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ مثلا لمبی چوڑی براتیں اور پھر ان کی پر تکلف ضیافت۔ اسی طرح ولیمے میں انواع واقسام کے کھانوں کی بھر مار اور دیگر رسومات اس اسراف وتبذیر اور فضولیات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ (تفصیل کے لیےدیکھیں ’’مسنون نکاح اور شادی بیاں کی رسومات، مطبوعہ دار السلام‘‘ تالیف.. حافظ صلاح الدین یوسف صاحب)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه الشيخان. وصححه الترمذي وابن الجارود) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد عن ثابت البُناني وحميد عن أنس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ إن كان حماد هو ابن زيد الأزدي، وعلى شرط مسلم وحده؛ إن كان هو ابن سلمة البصري؛ فإن كلاً من الحمادين روى عن ثابت وحميد. لكن يرجح أنه ابن سلمة: أن موسى بن إسماعيل لم يرو عن ابن زيد، وأكثر من الرواية عن ابن سلمة؛ فتعين أنه هو. وإن كان ابن زيد قد تابعه في روايته عن ثابت وحده كما يأتي. والحديث أخرجه أحمد (3/271) : ثنا عفان: ثنا حماد... به. وتابعه حماد بن زيد عن ثابت وحده. أخرجه البخاري (9/182) ، ومسلم (4/144) ، والبيهقي (7/236) . وكذا معمر عن ثابت: أخرجه أحمد (3/165) . وتابعه جماعة عن حميد وحده. أخرجه الشيخان وغيرهما، والترمذي- وصححه-، وهو مخرج في الإرواء (1923) .
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف ؓ پر زغفران کے نشانات دیکھے۔ تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”مہر کتنا دیا ہے؟“ کہا کہ گٹھلی کے وزن کے برابر سونا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کا ہو۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں ایک ”نواة“ (گٹھلی) پانچ درہم کے برابر ہوتی ہے اور نش بیس درہم کا اور اوقیہ چالیس درہم کا۔
حدیث حاشیہ:
1: انسان کو اپنی اسطاعت کے مطابق حق مہر باندھنا چاہیے جو لینا دینا آسان ہو۔ 2: زعفران اور دیگر رنگدار چیزیں (پاوڈر) مردوں کو استعمال کر نا جائز نہیں۔ 3: شادی یا غمی کے موقع پر بھی قریب وبعید کے عزیزواقارب کو بلا کسی اہم مقصد کے جمع کرنا کوئی سنت نہیں ہے ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے ہوئے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی شادی ہوئی اور رسول ﷺکو خبر نہیں دی گئی۔ 4: اصل سنت ولیمہ ہے حسب استطاعت جو میسر آئے بکری ہو یا کم و پیش کچھ اور جیسے کہ رسول ﷺنے سیدہ صفیہ رضی اللہ کے ولیمہ میں ستو ہی پیش فرمائے تھے۔ 5: اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری شادیاں، سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ مثلا لمبی چوڑی براتیں اور پھر ان کی پر تکلف ضیافت۔ اسی طرح ولیمے میں انواع واقسام کے کھانوں کی بھر مار اور دیگر رسومات اس اسراف وتبذیر اور فضولیات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ (تفصیل کے لیےدیکھیں ’’مسنون نکاح اور شادی بیاں کی رسومات، مطبوعہ دار السلام‘‘ تالیف.. حافظ صلاح الدین یوسف صاحب)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے جسم پر زعفران کا اثر دیکھا تو پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے، پوچھا: ”اسے کتنا مہر دیا ہے؟“ جواب دیا: گٹھلی (نواۃ۱؎) کے برابر سونا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”ولیمہ کرو چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو۲؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : نواۃ پانچ سو درہم کو کہتے ہیں، یعنی پانچ درہم (لگ بھگ پندرہ گرام) کے برابر سونا مہر مقرر کیا اور بعضوں نے کہا ہے کہ نواۃ سے کھجور کی گٹھلی مراد ہے۔ ۲؎ : یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مالی حیثیت دیکھ کر کہی تھی کہ ولیمہ میں کم سے کم ایک بکری ضرور ہو اس سے اس بات پر استدلال درست نہیں کہ ولیمہ میں گوشت ضروری ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں ستو اور کھجور ہی پر اکتفا کیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) saw the trace of yellow on 'Abd al-Rahman b. 'Awf. The Prophet (ﷺ) said: What is this? He replied: Messenger of Allah, I have married a woman. He asked: How much dower did you give her ? He said: A nawat weight of gold. He said: Hold a wedding feast, even if only with a sheep