Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: On The Dowry Being Some Actions That He Must Perform)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2114.
محمد بن راشد نے مکحول سے سیدنا سہل بن سعد ؓ کی روایت کی مانند بیان کیا، مکحول کہا کرتے تھے کہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی اور کے لیے روا نہیں ہے۔
تشریح:
1: پہلی حدیث (2111 ) میں اس محترمہ خاتون کا اپنے آپ کو رسول ﷺکے لئے بطور ہبہ پیش کرنا ایک عظیم ترین شرف حاصل کرنے کی کوشش تھی جو کامیاب نہ ہو سکی مگر رسول ﷺ از خود اس کے لئے ولی بن گئے اور ایک صاحب قرآن سے اس کا نکاح کر دیا اور مسئلہ ہبہ صرف اور صرف رسول ﷺکے لئے محضوص ہے، کسی اور کے لئے نہیں۔ سورۃ احزاب میں ہے: (وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ)(الأحزاب: 50) اور ایمان دا ر عورت جو اپنا نفس نبی کو ہیبہ کر دے، اس صورت میں کہ نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے، یہ خاص طور پر صرف آپ کے لئے ہے اور مومنوں کے لئے نہیں۔ 2: حق مہر مال کی صورت میں ہونا ہی اولی ہے، کم سے کم مقدار بھی اس مقصد کو پورا کر دیتی ہے اور ایسی تمام روایات جو پانچ یا دس درہم وغیرہ کو متعین کرنے کے بارے میں آئی ہیں تا قابل حجت ہیں۔ 3: اس میں یہ بھی ہے کہ ازحد فقیر کنگال کا بھی نکاح کیا جا سکتا ہے ۔ 4: اور تعلیم کو بھی حق مہر بنایا جا سکتا ہے، امام شافعی، امام احمد ؒ اور ان کے اصحاب اسی کے قائل ہیں، متحدہ ہندوستان میں تحریک جہاد کے موسسین نے اس سنت کو زندہ کیا تھا۔ مولانا ولایت علی ؒ نے جنہوں نے شاہ اسماعیل شہید ؒ کے بعد تحریک جہاد کی قیادت سنبھالی اور اس راہ میں بے مثال قربانی اور عزیمت کا نمونہ پیش کیا، متحدہ ہند میں احیائے سنت کے سلسلے میں بھی بڑے سرگرم رہے۔ نکاح بیوگان کے سلسلہ میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک شخص عبد الغنی انگر نہسوی (جو زمرہ مساکین میں سے تھے) کا عقد ایک بیوہ عورت سے تعلم قرآن مہر قرار دے کر کر دیا۔ (ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک) امام ابو حنیفہ اور امام مالک ؒ اس کے قائل نہیں ہیں، جیسے کہ آخری اثر میں جنات مکحول ؒ سے منقول ہوا ہے مگر یہ قول مرجوع ہے۔ 5: کوئی خاتون اپنژ نکاح کے سلسلے میں جنبانی کرے تو کوئی عیب کی بات نہیں ہے ایسے ہی کوئی ولی اپنی زیر تولیت لڑکی کے لئے رشتے آنے کا انتظار کرنے کی بجائے از خو دکسی سے بات کرے تو یہ بھی عیب والی بات نہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: وهذا مقطوع موقوف على مكحول، فلا حجة فيه، على أن ابن راشد يهم) . إسناده: حدثنا هارون بن زيد بن أبي الزّرقاءِ: ثنا أبي: ثنا محمد بن راشد...
قلت: وهذا إسناد مقطوع موقوف على مكحول، والراوي عنه فيه ضعف من قبل حفظه. (تنبيه) : إن ثبت هذا عن مكحول؛ فالأولى حمله على هبة المرأة نفسها لتصريح القران بقوله: (خالصة لك من دون المؤمنين) ، وقول سعيد بن المسيب: لا تحل الهبة لأحد بعد رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ولو أصْدقها سوْطا حلت له . رواه سعيد بن منصور (640) بسند صحيح عنه.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
محمد بن راشد نے مکحول سے سیدنا سہل بن سعد ؓ کی روایت کی مانند بیان کیا، مکحول کہا کرتے تھے کہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی اور کے لیے روا نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
1: پہلی حدیث (2111 ) میں اس محترمہ خاتون کا اپنے آپ کو رسول ﷺکے لئے بطور ہبہ پیش کرنا ایک عظیم ترین شرف حاصل کرنے کی کوشش تھی جو کامیاب نہ ہو سکی مگر رسول ﷺ از خود اس کے لئے ولی بن گئے اور ایک صاحب قرآن سے اس کا نکاح کر دیا اور مسئلہ ہبہ صرف اور صرف رسول ﷺکے لئے محضوص ہے، کسی اور کے لئے نہیں۔ سورۃ احزاب میں ہے: (وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ)(الأحزاب: 50) اور ایمان دا ر عورت جو اپنا نفس نبی کو ہیبہ کر دے، اس صورت میں کہ نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے، یہ خاص طور پر صرف آپ کے لئے ہے اور مومنوں کے لئے نہیں۔ 2: حق مہر مال کی صورت میں ہونا ہی اولی ہے، کم سے کم مقدار بھی اس مقصد کو پورا کر دیتی ہے اور ایسی تمام روایات جو پانچ یا دس درہم وغیرہ کو متعین کرنے کے بارے میں آئی ہیں تا قابل حجت ہیں۔ 3: اس میں یہ بھی ہے کہ ازحد فقیر کنگال کا بھی نکاح کیا جا سکتا ہے ۔ 4: اور تعلیم کو بھی حق مہر بنایا جا سکتا ہے، امام شافعی، امام احمد ؒ اور ان کے اصحاب اسی کے قائل ہیں، متحدہ ہندوستان میں تحریک جہاد کے موسسین نے اس سنت کو زندہ کیا تھا۔ مولانا ولایت علی ؒ نے جنہوں نے شاہ اسماعیل شہید ؒ کے بعد تحریک جہاد کی قیادت سنبھالی اور اس راہ میں بے مثال قربانی اور عزیمت کا نمونہ پیش کیا، متحدہ ہند میں احیائے سنت کے سلسلے میں بھی بڑے سرگرم رہے۔ نکاح بیوگان کے سلسلہ میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک شخص عبد الغنی انگر نہسوی (جو زمرہ مساکین میں سے تھے) کا عقد ایک بیوہ عورت سے تعلم قرآن مہر قرار دے کر کر دیا۔ (ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک) امام ابو حنیفہ اور امام مالک ؒ اس کے قائل نہیں ہیں، جیسے کہ آخری اثر میں جنات مکحول ؒ سے منقول ہوا ہے مگر یہ قول مرجوع ہے۔ 5: کوئی خاتون اپنژ نکاح کے سلسلے میں جنبانی کرے تو کوئی عیب کی بات نہیں ہے ایسے ہی کوئی ولی اپنی زیر تولیت لڑکی کے لئے رشتے آنے کا انتظار کرنے کی بجائے از خو دکسی سے بات کرے تو یہ بھی عیب والی بات نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مکحول سے بھی سہل کی روایت کی طرح مروی ہے، مکحول کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لیے یہ درست نہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Makhul has also transmitted a tradition like the one narrated by Sahl (b. Sa'd al-Sa'idi). Makhul used to say: This is not lawful for anyone after the Messenger of Allah (ﷺ).