Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: On Pre-Seminal Fluid (Madhi))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
212.
جناب حرام بن حکیم اپنے چچا (سیدنا عبداللہ بن سعد ؓ) سے راوی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا کہ میری بیوی جب ایام (حیض) میں ہو تو (ان دنوں) میرے لیے اس سے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”تہہ بند سے اوپر اوپر اور (عبداللہ بن سعد ؓ نے) حائضہ عورت کے ساتھ مل کر کھا پی لینے کے متعلق بھی پوچھا، اور حدیث بیان کی۔
تشریح:
عورت جب مخصوص ایام میں ہوتو زوجین کے لیے خاص جنسی عمل حرام ہے۔ تاہم اکٹھے کھاپی، اٹھ بیٹھ اور لیٹ سکتےہیں۔ اسی کو آپ نے [مافوق الإزار] ’’تہہ بند سے اوپراوپر‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے مذی کا اخراج ہوگا توغسل واجب نہ ہوگا۔ ہاں اگر منی نکل آئے تو غسل کرنا پڑے گا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وروى الترمذي منه: سألت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن مؤاكلة الحائض؟ فقال: وَاكِلْها لما. وقال: حديث حسن ) . إسناده: حدثنا هارون بن محمد بن بَكَّار: قال: ثنا مروان- يعني: ابن محمد- قال: ثنا الهيثم بن حميد قال: ثنا العلاء بن الحارث عن حَرَام بن حكيم عن عمه. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات؛ وفي الهيثم بن حميد كلام لا يضر؛ وفي التقريب أنه: صدوق . والحديث أخرجه البيهقي (1/312) من طريق المؤلف. وأخرج الترمذي القَدْرَ المذكور في الأعلى، وكذا أخرجه ابن ماجه وأحمد، كما سبق في الكلام على الذي قبله. والحديث ضعفه ابن حزم بغير حجة، فقال (2/180- 181) : لا يصح؛ لأن حرام بن حكيم ضعيف، وهو الذي روى غسل الأنثيين من المذي، وأيضا؛ فإن مروان بن محمد ضعيف !! قلت: حرام بن حكيم؛ وثقه دحيم والعجلي كما سبق فيما قبل. وقال الحافظ في التهذيب : ونقل بعض الحفاظ عن الدارقطني أنه وثق حرام بن حكيم. وقد ضعفه ابن حزم في المحلى بغير مستند. وقال عبد الحق عقب حديثه: لا يصح هذا. وقال فما موضع آخر: ضعيف. فكأنه تبع ابن حزم! وأنكر عليه ذلك ابن القطان الفاسي فقال: بل مجهول الحال. وليس كما قالوا:[بل هو] ثقة؛ كما قال العجلي وغيره . وأما مروان بن محمد- وهو الطَاطَرِي-؛ فثقة أيضا، وثقه أبو حاتم وابن معين وغيرهما. وقال الحافظ: وضعفه ابن حزم فأخظأ؛ لأنا لا نعلم له سلفاً في تضعيفه؛ إلا ابن قانع، وقول ابن قانع غير مقنع .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب حرام بن حکیم اپنے چچا (سیدنا عبداللہ بن سعد ؓ) سے راوی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا کہ میری بیوی جب ایام (حیض) میں ہو تو (ان دنوں) میرے لیے اس سے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”تہہ بند سے اوپر اوپر اور (عبداللہ بن سعد ؓ نے) حائضہ عورت کے ساتھ مل کر کھا پی لینے کے متعلق بھی پوچھا، اور حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
عورت جب مخصوص ایام میں ہوتو زوجین کے لیے خاص جنسی عمل حرام ہے۔ تاہم اکٹھے کھاپی، اٹھ بیٹھ اور لیٹ سکتےہیں۔ اسی کو آپ نے [مافوق الإزار] ’’تہہ بند سے اوپراوپر‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے مذی کا اخراج ہوگا توغسل واجب نہ ہوگا۔ ہاں اگر منی نکل آئے تو غسل کرنا پڑے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن سعد انصاری ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: جب میری بیوی حائضہ ہو تو اس کی کیا چیز میرے لیے حلال ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارے لیے لنگی (تہبند) کے اوپر والا حصہ درست ہے۔“ نیز اس کے ساتھ حائضہ کے ساتھ کھانے کھلانے کا بھی ذکر کیا، پھر راوی نے (سابقہ) پوری حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
عورت جب مخصوص ایام میں ہو تو زوجین کے لیے خاص جنسی عمل حرام ہے۔ تاہم اکٹھے کھا پی، اٹھ بیٹھ اور لیٹ سکتے ہیں۔ اسی کو آپ نے «ما فوق الإزار» ”تہہ بند سے اوپر“ سے تعبیر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے مذی کا اخراج ہو گا تو غسل واجب نہ ہو گا۔ ہاں اگر منی نکل آئے تو غسل کرنا پڑے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Sa'd al-Ansari (RA): 'Abdullah asked the Apostle of Allah (ﷺ): What is lawful for me to do with my wife when she is menstruating? He replied: What is above the waist-wrapper is lawful for you. The narrator also mentioned (the lawfulness of) eating with a woman in menstruation, and he transmitted the tradition in full.