باب: شوہر کنواری بیوی کے ہاں ( اس کی ابتدائی رخصتی کے وقت ) کتنے دن اقامت کرے؟
)
Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Residing With A Virgin (After Marriage))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2124.
سیدنا انس بن مالک ؓ نے کہا کہ اگر کوئی شخص (اپنے ہاں) بیوہ (بیوی) کے ہوتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات دن رکے۔ اور جب بیوہ سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین دن۔ (ابوقلابہ نے) کہا: اگر میں کہوں کہ انہوں (انس ؓ) نے اسے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر کے (مرفوع) بیان کیا تو میں سچ ہی کہوں گا، لیکن انہوں نے کہا تھا: ”سنت یہی ہے۔“
تشریح:
1: صحابی کا کسی عمل کے بارے میں سنت کہہ دینا اس کے مرفوع ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ 2: تین یا سات دن کی خصوصیت ابتدائی دنوں کی ہے اس کے بعد عدل سے باری مقرر کر لی جائے اور طے شدہ نظام کے مطابق عمل کیا جائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي وابن الجارود) . إسناده: ثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا هشيم وإسماعيل ابن عُلَيَّةَ عن خالد الحَذاء عن أبي قلابة عن أنس بن مالك.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه من طريق الحذاء وأيوب السَّخْتِيَانِيِّ، وهو مخرج في الإرواء (2025) . وأزيد الآن فأقول: في النفس شيء من عنعنة أبي قلابة؛ فإني لم أجد تصريحه بالتحديث في شيء من الروايات التي وقفت عليها، وإن كان ظاهر كلام الحافظ في الفتح (9/258) يشعر بأنه سمعه من أنس! وهو قائم على أن القائل: ولو قلت: إنه رفعه ... إلخ؛ إنما هو أبو قلابة؛ وهو ظاهر رواية المصنف، وصرح بذلك البخاري في رواية. لكن في أخرى له: أنه خالد الحذاء! وجمع الحافظ بين الروايتين بأن كلاً منهما قال ذلك! وفيه بعد! والله تعالى أعلم. ومهما يكن من أمر؛ فقد وجدت لأبي قلابة متابعاً قوياً؛ فقد أخرج الحديث سعيد بن منصور في سننه (778) عن هشيم عن خالد... به. ثم قال عقبه: نا هشيم: أنا حميد قال: سست أنس بن مالك يقول مثل ذلك. وأخرجه ابن أبي شيبة أيضاً (4/278) . وإسناده صحيح على شرطهما.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
سیدنا انس بن مالک ؓ نے کہا کہ اگر کوئی شخص (اپنے ہاں) بیوہ (بیوی) کے ہوتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات دن رکے۔ اور جب بیوہ سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین دن۔ (ابوقلابہ نے) کہا: اگر میں کہوں کہ انہوں (انس ؓ) نے اسے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر کے (مرفوع) بیان کیا تو میں سچ ہی کہوں گا، لیکن انہوں نے کہا تھا: ”سنت یہی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1: صحابی کا کسی عمل کے بارے میں سنت کہہ دینا اس کے مرفوع ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ 2: تین یا سات دن کی خصوصیت ابتدائی دنوں کی ہے اس کے بعد عدل سے باری مقرر کر لی جائے اور طے شدہ نظام کے مطابق عمل کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ جب کوئی ثیبہ کے رہتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات رات رہے، اور جب ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات رہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ انس ؓ نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے تو سچ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ”سنت اسی طرح ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas b. Malik (RA): When a man who has a wife married a virgin he should stay with her seven nights ; if he marries to a woman who has been previously married he should stay with her three nights. (The narrator said:) If I say that he (Anas (RA)) narrated this tradition from the Prophet (ﷺ) I shall be true. But he said: The Sunnah is so-and-so.