Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: On Pre-Seminal Fluid (Madhi))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
213.
سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ایام حیض میں مرد کے لیے اپنی بیوی سے کیا حلال ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تہہ بند سے اوپر اوپر۔ (حلال ہے) تاہم اس سے بچنا افضل ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں۔
تشریح:
ایام مخصوصہ میں جوان میاں بیوی کو ازحد احتیاط چاہئےعین ممکن ہے کہ ایسی حد تک پہنچ جائیں کہ واپس آنا مشکل ہوجائے۔ تاہم (جماع کےبغیر) مباشرت جائز ہے، کیونکہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: وهو كما قال، وله ثلاث علل: تدليس بقية، وضعف سعد الأغطش، والانقطاع بين ابن عائذ ومعاذ. وكذلك قال ابن حزم: لا يصح ) . إسناده: ثنا هشام بن عبد الملك اليزنِي: ثنا بقية بن الوليد. وهذا إسناد ضعيف، وله ثلاث علل: الأولى: عنعنة بقية؛ فقد كان مدلساً. الثانية: ضعف سعد بن عبد الله الأغطش؛ قال عبد الحق: إنه ضعيف . وقال الحافظ في التقريب : إنه لين الحديث . وأما ابن حبان؛ فذكره في الثقات - كما في التهذيب -! الثالثة: الانقطاع بين عبد الرحمن بن عائد ومعاذ؛ ففي التهذيب في ترجمة ابن عائذ: قال أبو زرعة: لم يدرك معاذاً . ولذلك صرح المؤلف بضعف الحديث، كما تراه آنفاً. وضعفه ابن حزم أيضاً؛ فقال في المحلى (2/181) : لا يصح؛ لأنه عن بقية- وليس بالقوي- عن سعيد الأغطش- وهو مجهول . وقال الحافظ في التلخيص (2/427) : ورواه الطبراني من رواية إسماعيل بن عياش عن سعيد بن عبد الله الخزاعي؛ فإن كان هو الأغطش فقد توبع بقية. وبقيت جهالة حال سعيد؛ فإنا لا نعرف أحداً وثقه. وأيضاً فعبد الرحمن بن عائذ قال أبو حاتم: روايته عن علي مرسلة . فإذا كان كذلك؛ فعن معاذ أشد إرسالاً . قلت: الأولى في إثبات نقطاعه قول أبي زرعة الذي نقلناه عن تهذيبه آنفاً. ونقل صاحب المشكاة رقم (546) عن محيي السنة- يعني: البغوي-، أنه قال: إسناده ليس بقوي . ومن الغرائب: أنه عزاه لرزين دون المصنف!
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ایام حیض میں مرد کے لیے اپنی بیوی سے کیا حلال ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تہہ بند سے اوپر اوپر۔ (حلال ہے) تاہم اس سے بچنا افضل ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ایام مخصوصہ میں جوان میاں بیوی کو ازحد احتیاط چاہئےعین ممکن ہے کہ ایسی حد تک پہنچ جائیں کہ واپس آنا مشکل ہوجائے۔ تاہم (جماع کےبغیر) مباشرت جائز ہے، کیونکہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: مرد کے لیے اس کی حائضہ بیوی کی کیا چیز حلال ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”لنگی (تہبند) کے اوپر کا حصہ جائز ہے، لیکن اس سے بھی بچنا افضل ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
عورت جب مخصوص ایام میں ہو تو (جماع کے بغیر) مباشرت جائز ہے جیسا کہ حدیث ۲۱۲ میں ذکر ہوا۔ مذکورہ حدیث ضعیف ہے، جیسا کہ حدیث میں بیان بھی ہوا کہ امام ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mu'adh ibn Jabal (RA): I asked the Apostle of Allah (ﷺ): What is lawful for a man to do with his wife when she is menstruating? He replied: What is above the waist-wrapper, but it is better to abstain from it, too.