Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding The Command To Lower The Gaze)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2154.
سیدناابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مذکورہ قصہ بیان کیا، فرمایا: ”کان زنا کرتے ہیں اور ان کی بدکاری سننا ہے۔“
تشریح:
1: گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں، کبیرہ اور صغیرہ (بڑے اور چھوٹے) کبیرہ گناہ وہ ہیں جن پرشریعت نے کوئی حدوتعزیرمقررکر دی ہے یا ان پر عذاب شدید، لعنت یا کوئی سخت وعید سنائی ہے، ایسے گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ صغیرہ گناہ وہ ہیں جو اتفاقا ہو جاتے ہیں اور شریعت کی طرف سےان پر کوئی حدوتعزیر نہیں لگائی گئی ہے۔ انہی کو (لمم) سے تعبیر کہا گیا ہے۔ سورۃ النجم میں محسنین کے ذکر میں فرمایا ہے وہ جو بچتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کے کاموں سے مگر عام قسم کے گناہوں سے صغیرہ گناہ عام نیکی کے کاموں سے معاف ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی بھی صاحب ایمان کو ان میں جری نہیں ہو جانا چاہیے، کیونکہ معاف کرنا یا نہ کرنا، اللہ عزوجل کی مشیت پر مبنی ہے، نیز علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی صغیرہ نہ جانے اور ان کو اپنی عادت بنا لے تو وہ بھی کبیرہ کے زمرہ میں آجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر بلا ارادہ کوئی کبیرہ گناہ سرزرد ہو گیا ہو تو انسان نادم ہو اور کثرت سے توبہ کرنے لگے تو وہ ان شا ء اللہ صغیرہ کی مانند معاف کر دیا جائے گا، بہر حال انسان کو اپنے معلوم اور غیر معلوم سبھی گناہوں سے اللہ کے حضور معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ 2: اعضائے جسم نظر، کان ہاتھ، قدم اور منہ کے گناہوں کو زنا سے تعبیر کرنا، ان کے ازحد قبیح ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا انجام انتہائی بر اہو سکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح. وأخرجه مسلم) . إسناده: حدثنا قتيبة: ثنا الليث عن ابن عجلان عن القعقاع بن حكيم عن أبي صالح عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد حسن. وبه: أخرجه أحمد (2/379) . وهذه الزيادة: عند مسلم في رواية وهيب السابقة. وله طرق أخرى عن أبي هريرة، يزيد بعضهم على بعض، وقد أشرت إليها في الإرواء (1787) .
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
سیدناابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مذکورہ قصہ بیان کیا، فرمایا: ”کان زنا کرتے ہیں اور ان کی بدکاری سننا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1: گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں، کبیرہ اور صغیرہ (بڑے اور چھوٹے) کبیرہ گناہ وہ ہیں جن پرشریعت نے کوئی حدوتعزیرمقررکر دی ہے یا ان پر عذاب شدید، لعنت یا کوئی سخت وعید سنائی ہے، ایسے گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ صغیرہ گناہ وہ ہیں جو اتفاقا ہو جاتے ہیں اور شریعت کی طرف سےان پر کوئی حدوتعزیر نہیں لگائی گئی ہے۔ انہی کو (لمم) سے تعبیر کہا گیا ہے۔ سورۃ النجم میں محسنین کے ذکر میں فرمایا ہے وہ جو بچتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کے کاموں سے مگر عام قسم کے گناہوں سے صغیرہ گناہ عام نیکی کے کاموں سے معاف ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی بھی صاحب ایمان کو ان میں جری نہیں ہو جانا چاہیے، کیونکہ معاف کرنا یا نہ کرنا، اللہ عزوجل کی مشیت پر مبنی ہے، نیز علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی صغیرہ نہ جانے اور ان کو اپنی عادت بنا لے تو وہ بھی کبیرہ کے زمرہ میں آجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر بلا ارادہ کوئی کبیرہ گناہ سرزرد ہو گیا ہو تو انسان نادم ہو اور کثرت سے توبہ کرنے لگے تو وہ ان شا ء اللہ صغیرہ کی مانند معاف کر دیا جائے گا، بہر حال انسان کو اپنے معلوم اور غیر معلوم سبھی گناہوں سے اللہ کے حضور معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ 2: اعضائے جسم نظر، کان ہاتھ، قدم اور منہ کے گناہوں کو زنا سے تعبیر کرنا، ان کے ازحد قبیح ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا انجام انتہائی بر اہو سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی ابوہریرہ ؓ نبی اکرم ﷺ سے یہ قصہ روایت کرتے ہیں اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اور کانوں کا زنا سننا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The aforesaid tradition has also been transmitted by Abu Hurairah (RA) through a different chain of narrators. This version adds “The fornication of ear is hearing”.