Abu-Daud:
Divorce (Kitab Al-Talaq)
(Chapter: Regarding The Disliked Nature Of Divorce)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2178.
محارب بن دثار، سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کے ہاں حلال کاموں میں سب سے ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔“
تشریح:
امام حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی توثیق کی ہے۔ (مستدرك حاکم، الطلاق، حدیث:2794) مگر ابو حاتم دار قطنی اور بیہقی نے اس کا مرسل ہونا راجع کہا ہے۔ شیخ البانی ؒ نے بھی غالباً اسی دجہ سے ان دونوں روایات کو ضعیف سنن ابی میں درج کیا ہے۔ 2۔ اور کراہت سے مراد ان اسباب کی کراہت ہے جن کی دجہ سے طلاق ہو۔ علامہ خطانی کہتے ہیں کہ نفس طلاق کو اللہ تعالی نے مباح کیا ہے اور ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق دی تھی پھر رجوع کیا تھا۔ (سنن أبي داود، الطلاق، حديث ::٢٢٨٣ّ، مستدرك حاكم، الطلاق، حديث:٢٧٩٢) ایسے ہی ابن عمر کی ایک بیوی تھی انہیں ان سے بہت الفت تھی مگر حضرت عمر کو ان کا ان کے ساتھ رہنا پسند نہ تھا۔ انہوں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کردی تو آپ نے ان کو بلایا اور کہا: عبداللہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو چنانچہ انہوں نے طلاق دے دی۔ (جامع الترمذي، الطلاق والعان، حديث;١١٨٩) اور یہ نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ﷺ کوئی ایسا حکم ارشاد فرمائیں جو اللہ تعالی کے ہاں مکروہ ہو۔ طلاق کی مختلف صورتیں: 1۔طلاق سنی: اس کی دو صورتیں ہیں۔ (الف) طلاق احسن: انسان بیوی کو حالت طہر میں قبل از جماع ایک طلاق دے پھر اسے چھوڑدے حتی کہ اس کی عدت مکمل ہوجائے۔ یا عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلے۔ (ب) طلاق حسن۔ ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو پھر دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے۔ 2۔ طلاق بدعی: ایک لفظ یا جملے میں متعدد طلاقیں دے یا متعدد جملے استعمال کرکے متعدد طلاقیں دے مگر ایک ہی طہر میں دے یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں مباشرت کی ہو۔ 3۔ طلاق رجعی: پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ طلاق رجعی ہوتی ہے۔ یعنی ان میں عدت کے دوران میں شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے۔ 4۔ (الف) طلاق بائن: (بینونہء صغری) یعنی ایک طلاق دے پھر خاموش رہےحتی کہ عدت پوری ہوجائے۔ اب عورت بائن ہوگئی جس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ پہلا شوہر بھی اس کی منظوری اور اجازت سے نکاح کرسکتا ہے۔ اس صورت میں بعد از عدت نیا عقد نئے حق مہر سے ہوسکتا ہے۔ (ب) طلاق بائن (بینونہ کبری) مختلف اوقات یا مختلف مجالس میں تین طلاقیں پوری کردے حتی کہ شوہر کو رجوع کا حق باقی نہ رہے ایسی صورت میں وہ عورت کسی اور سے (باقاعدہ آباد رہنے کی نیت سے) نکاح کرے اس سے فی الواقع مباشرت ہو اور پھر اتفاقیہ طلاق یا خاوند کی موت کے سبب وہ عورت وہاں سے فارغ ہوجائے تو پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ 5۔ طلاق صریح: واضح اور صریح الفاظ سے طلاق دینا۔ 6۔ طلاق کنایہ: ایسے الفاظ سے طلاق دینا جو طلاق اور غیر طلاق دونوں معانی کے متحمل ہوں۔ ایسے میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔ 7۔ طلاق منجز: صریح اور واضح طلاق جو فوراً نافذ ہوجاتی ہے۔ 8۔ طلاق معلق: کسی قول وفعل کے ساتھ مشروط کرکے طلاق دینا مثلاً اگر ایسا ہوا تو طلاق وغیرہ۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: هذا إسناد موصول. ولكنه شاذ كما ذهب إليه جماعة من الأئمة، وقالوا: الصواب مرسل) . إسناده: حدثنا كثيرُ بن عُبيدٍ: ثنا محمّدُ بنُ خالدٍ عن مُعرف بنِ واصل عن مُحارب بن دِثار...
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ لكن محمد بن خالد- وهو الوالبي- قد خالفه ثلاثة من الثقات؛ فرووه عن مُعرِّفِ بنِ واصل عن محارب مرسلاً؛ لم يذكروا فيه ابن عمر، وبيانه في المصدر السابق.
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
محارب بن دثار، سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کے ہاں حلال کاموں میں سب سے ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔“
حدیث حاشیہ:
امام حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی توثیق کی ہے۔ (مستدرك حاکم، الطلاق، حدیث:2794) مگر ابو حاتم دار قطنی اور بیہقی نے اس کا مرسل ہونا راجع کہا ہے۔ شیخ البانی ؒ نے بھی غالباً اسی دجہ سے ان دونوں روایات کو ضعیف سنن ابی میں درج کیا ہے۔ 2۔ اور کراہت سے مراد ان اسباب کی کراہت ہے جن کی دجہ سے طلاق ہو۔ علامہ خطانی کہتے ہیں کہ نفس طلاق کو اللہ تعالی نے مباح کیا ہے اور ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق دی تھی پھر رجوع کیا تھا۔ (سنن أبي داود، الطلاق، حديث ::٢٢٨٣ّ، مستدرك حاكم، الطلاق، حديث:٢٧٩٢) ایسے ہی ابن عمر کی ایک بیوی تھی انہیں ان سے بہت الفت تھی مگر حضرت عمر کو ان کا ان کے ساتھ رہنا پسند نہ تھا۔ انہوں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کردی تو آپ نے ان کو بلایا اور کہا: عبداللہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو چنانچہ انہوں نے طلاق دے دی۔ (جامع الترمذي، الطلاق والعان، حديث;١١٨٩) اور یہ نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ﷺ کوئی ایسا حکم ارشاد فرمائیں جو اللہ تعالی کے ہاں مکروہ ہو۔ طلاق کی مختلف صورتیں: 1۔طلاق سنی: اس کی دو صورتیں ہیں۔ (الف) طلاق احسن: انسان بیوی کو حالت طہر میں قبل از جماع ایک طلاق دے پھر اسے چھوڑدے حتی کہ اس کی عدت مکمل ہوجائے۔ یا عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلے۔ (ب) طلاق حسن۔ ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو پھر دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے۔ 2۔ طلاق بدعی: ایک لفظ یا جملے میں متعدد طلاقیں دے یا متعدد جملے استعمال کرکے متعدد طلاقیں دے مگر ایک ہی طہر میں دے یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں مباشرت کی ہو۔ 3۔ طلاق رجعی: پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ طلاق رجعی ہوتی ہے۔ یعنی ان میں عدت کے دوران میں شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے۔ 4۔ (الف) طلاق بائن: (بینونہء صغری) یعنی ایک طلاق دے پھر خاموش رہےحتی کہ عدت پوری ہوجائے۔ اب عورت بائن ہوگئی جس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ پہلا شوہر بھی اس کی منظوری اور اجازت سے نکاح کرسکتا ہے۔ اس صورت میں بعد از عدت نیا عقد نئے حق مہر سے ہوسکتا ہے۔ (ب) طلاق بائن (بینونہ کبری) مختلف اوقات یا مختلف مجالس میں تین طلاقیں پوری کردے حتی کہ شوہر کو رجوع کا حق باقی نہ رہے ایسی صورت میں وہ عورت کسی اور سے (باقاعدہ آباد رہنے کی نیت سے) نکاح کرے اس سے فی الواقع مباشرت ہو اور پھر اتفاقیہ طلاق یا خاوند کی موت کے سبب وہ عورت وہاں سے فارغ ہوجائے تو پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ 5۔ طلاق صریح: واضح اور صریح الفاظ سے طلاق دینا۔ 6۔ طلاق کنایہ: ایسے الفاظ سے طلاق دینا جو طلاق اور غیر طلاق دونوں معانی کے متحمل ہوں۔ ایسے میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔ 7۔ طلاق منجز: صریح اور واضح طلاق جو فوراً نافذ ہوجاتی ہے۔ 8۔ طلاق معلق: کسی قول وفعل کے ساتھ مشروط کرکے طلاق دینا مثلاً اگر ایسا ہوا تو طلاق وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said: Of all the lawful acts the most detestable to Allah is divorce.