باب: جنبی (اگر غسل کرنے سے پہلے) اپنی بیوی کے پاس دوبارہ آئے تو...؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Sexually Impure Person Who Wishes To Repeat (The Act))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
218.
سیدنا انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک بار اپنی (تمام) بیویوں کے پاس آئے اور ایک ہی غسل کیا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ (ایک ہی غسل کا ذکر) دیگر اسانید سے بھی ثابت ہے۔ یعنی: ہشام بن زید نے انس ؓ سے اور معمر نے بواسطہ قتادہ، انس ؓ سے اور صالح بن ابی الاخضر نے بواسطہ زہری، انس ؓ سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔
تشریح:
1۔ انسان اپنی بیوی کے پاس دوسری بار جاناچاہئے یا دیگر بیویوں کے پاس جانا چاہتا ہوتو اس دوران میں غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ صرف وضوکافی ہے، جس کا اس روایت میں بوجہ اختصار ذکرنہیں ہوا۔ 2۔ نبی کا معمول تھا کہ زوجات میں باری کا اہتمام فرماتے تھے‘ مگر بعض اوقات سفرہ وغیرہ سے واپسی پر باقاعدہ باری شروع کرنے سے پہلے ایک بار سب کے پاس چلے جاتے تھے یا کوئی اور وجہ بھی ہوتی ہوگی۔ 3۔ حضرت انس کی روایت کے مطابق نبیﷺکو تیس مردوں کی قوت دی گئی تھی۔ (صحیح بخاري‘ حدیث:268)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وأخرجه أبو عوانة في صحيحه ) . إسناده: حدثنا مسدد قال: ثنا إسماعيل قال: ثنا حميد الطويل. وهذا سند صحيح على شرط البخاري. لكن ذكر غير واحد من الأئمة أن حميداً كان يدلس عن أنس؛ قالوا: إنما رواها عن ثابت عن أنس، واختلفوا هل سمع من أنس شيئاً أم لا؟! والصواب الأول؛ فقد صرح حميد بسماعه من أنس يشيء كثير؛ وفىِ صحيح البخاري من ذلك جملة، كما قال الحافظ في التهذيب . وينتج من ذلك: أنه صحيح الحديث عن أنس على كل حال؛ سواءً صرح بسماعه أو عنعن. أما على الأول فواضح؛ لأنه ثقة اتفاقاً. وأما على الثاني؛ فلأنه إن لم يكن سمعه من أنس؛ فقد سمعه من ثابت عنه، وثابت ثقة أيضا اتفاقاً. ولذلك قال الحافظ أبو سعيد العلائي: فعلى تقدير أن تكون أحاديث حميد مدلسة؛ فقد تبين الواسطة فيها؛ وهو ثقة محتج به . وقد صح من حديث ثابت، كما نذكره قريباً. والحديث أخرجه أحمد (3/189) : ثنا إسماعيل... به. وأخرجه للنسائي (1/51- 52) ، والبيهقي (1/204) من طرق أخرى عن إسماعيل... به. وقد تابعه هشيم عن حميد. اْخرجه أحمد (3/99) ، والطحاوي (1/77) . وقد رواه ثابت عن أنس. أخرجه أحمد (3/111) - عن معمر-، وهو (3/135 و 160 و 252) ، والطحاوي- عن حماد- كلاهما عن ثابت... به. (تنبيه) : فوله: (ذات يوم) ليست في بعض النسخ، ولا في مختصر المنذري ؛ وهي ثابتة في نسخة العون .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک بار اپنی (تمام) بیویوں کے پاس آئے اور ایک ہی غسل کیا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ (ایک ہی غسل کا ذکر) دیگر اسانید سے بھی ثابت ہے۔ یعنی: ہشام بن زید نے انس ؓ سے اور معمر نے بواسطہ قتادہ، انس ؓ سے اور صالح بن ابی الاخضر نے بواسطہ زہری، انس ؓ سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ انسان اپنی بیوی کے پاس دوسری بار جاناچاہئے یا دیگر بیویوں کے پاس جانا چاہتا ہوتو اس دوران میں غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ صرف وضوکافی ہے، جس کا اس روایت میں بوجہ اختصار ذکرنہیں ہوا۔ 2۔ نبی کا معمول تھا کہ زوجات میں باری کا اہتمام فرماتے تھے‘ مگر بعض اوقات سفرہ وغیرہ سے واپسی پر باقاعدہ باری شروع کرنے سے پہلے ایک بار سب کے پاس چلے جاتے تھے یا کوئی اور وجہ بھی ہوتی ہوگی۔ 3۔ حضرت انس کی روایت کے مطابق نبیﷺکو تیس مردوں کی قوت دی گئی تھی۔ (صحیح بخاري‘ حدیث:268)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن ایک ہی غسل سے اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح اسے ہشام بن زید نے انس سے اور معمر نے قتادہ سے، اور قتادہ نے انس سے اور صالح بن ابی الاخضر نے زہری سے اور ان سب نے انس ؓ سے اور انس نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی سب سے صحبت کی، اور پھر آخر میں غسل کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas (RA) reported: One day the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) had sexual intercourse with (all) his wives with a single bath. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This tradition has been transmitted through another chain of narrators.