Abu-Daud:
Divorce (Kitab Al-Talaq)
(Chapter: Regarding The Sunnah For Divorcing Slaves)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2187.
ابوحسن مولیٰ بنی نوفل نے سیدنا ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ غلام جس کی زوجیت میں کوئی لونڈی ہو، وہ اسے دو طلاقیں دیدے، پھر وہ دونوں اس کے بعد آزاد ہو جائیں تو کیا اس آزاد غلام کے لیے روا ہے کہ وہ اس (اپنی پہلے والی بیوی، یعنی اس آزاد لونڈی) کو شادی کا پیغام دے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فیصلہ فرمایا تھا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف، عمر بن مُعتب لا يعرف كما قال الذهبي وغيره. وقال الخطابي والمنذري: في إسناده مقال، ولم يذهب إليه أحد من العلماء ) . إسناده: حدثنا زهير بن حرب: ثنا يحيى بن سعيد: ثنا علي بن المبارك: حدثني يحيى بن أبي كثير أن عمر بن مُعتبٍ أخبره...
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ لجهالة عمر هذا. قال أحمد وأبو حاتم: لا أعرفه . وقال ابن المديني: منكر الحديث . وقال النسائي: ليس بالقوي . وذكره العقيلي وغيره في الضعفاء . وشذ ابن حبان- كعادته- فذكره في الثقات ! واغتر به الشيخ أحمد شاكر فحسن إسناده في تعليقه على المسند (3/324) مع أنه حكم عليه بأنه شبه مجهول! وقال الذهبي: لا أعرفه . وقال الحافظ: ضعيف . وقال الخطابي وتبعه المنذري: لم يذهب إلى هذا أحد من العلماء فيما أعلم، وفي إسناده مقال . والحديث أخرجه النسائي (2/99) من طريق أخرى عن يحيى بن سعيد وهو القطان؛ وعنه أخرجه أحمد (1/229) . وأخرجه البيهقي (7/370) من طريق شيبان النحوي عن يحيى بن أبي كثير عن عمرو بن معتب... به. وتابعه معمر عن يحيى... به؛ لكن قال: الحسن مولى ابن نوفل. أخرجه عبد الرزاق في مصنفه (12989) عنه. وعن عبد الرزاق رواه النسائي وابن ماجه (1/641) ، وأحمد (1/334) وكلهم قالوا: عن عمرو بن معتب عن أبي الحسن؛ غير النسائي.. ففيه: عن الحسن. والصواب: الأول؛ كما قال السندي.
قلت: ويحتمل أن يكون اسمه الحسن، وكنيته أبو الحسن؛ فذكره بعضهم باسمه، وبعضهم بكنيته، وله أمثلة كثيرة. والله أعلم. وقال البيهقي- بعد أن روى عن ابن المديني أنه قال في ابن معتب هذا إنه مجهول؛ لم يرو عنه غيريحيى-: وعامة الفقهاء على خلاف ما رواه، ولو كان ثابتاً قلنا به؛ إلا أنا لا نثبت حديثاً يرويه من تجهل عدالته .
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
ابوحسن مولیٰ بنی نوفل نے سیدنا ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ غلام جس کی زوجیت میں کوئی لونڈی ہو، وہ اسے دو طلاقیں دیدے، پھر وہ دونوں اس کے بعد آزاد ہو جائیں تو کیا اس آزاد غلام کے لیے روا ہے کہ وہ اس (اپنی پہلے والی بیوی، یعنی اس آزاد لونڈی) کو شادی کا پیغام دے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فیصلہ فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بنی نوفل کے غلام ابوحسن نے ابن عباس ؓ سے اس غلام کے بارے میں فتویٰ پوچھا جس کے نکاح میں کوئی لونڈی تھی تو اس نے اسے دو طلاق دے دی اس کے بعد وہ دونوں آزاد کر دیئے گئے، تو کیا غلام کے لیے درست ہے کہ وہ اس لونڈی کو نکاح کا پیغام دے؟ ابن عباس ؓ نے کہا: ہاں رسول اللہ ﷺ نے اسی کا فیصلہ دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): 'Umar ibn Mu'tab reported: Abu Hasan, a client of Banu Nawfal asked Ibn 'Abbas (RA): A slave had a wife who was a slave-girl. He divorced her by two pronouncements. Afterwards both of them were freed. Is it permissible for him to ask her in marriage again? He said: Yes. This is a decision given by the Apostle of Allah (ﷺ).