Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Performing Wudu' For One Who Wishes To Repeat (The Act))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
219.
سیدنا ابورافع ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ (ایک بار) اپنی ازواج کے پاس آئے اور ہر ایک کے ہاں غسل کیا۔ ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ (آخر میں) ایک ہی غسل نہیں کر لیتے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”یہ زیادہ پاکیزہ، عمدہ اور طہارت کا باعث ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ سیدنا انس ؓ کی حدیث (جو اوپر ذکر ہوئی) اس سے زیادہ صحیح ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: وهو كما قال؛ فإن هذا إسناده حسن، ولكن لا تعارض بينهما؛ بل كان يفعل تارة هذا، وتارة ذلك، كما قال النسائي وغيره. والحديث قواه الحافظ ابن حجر) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل قال: حدثنا حماد عن عبد الرحمن بن أبي رافع عن عمته سلمى عن أبي رافع. وهذا إسناد حسن إن شاء الله تعالى؛ سلمى عمة عبد الرحمن بن أبي رافع؛ روى عنها أيضا أيوب بن الحسن بن علي بن أبي رافع وزيد بن أسلم والقعقاع بن حكيم، وذكرها ابن حبان في الثقات ؛ فهي حسنة الحديث إن شاء الله. وكذلك ابن أخيها عبد الرحمن بن أبي رافع؛ قال في التهذيب : روى عن عبد الله بن جعفر، وعن عمه عن أبي رافع. وعن عمته سلمى عن أبي رافع. وعنه حماد بن سلمة. قال إسحاق بن منصور عن ابن معين: صالح. له عند الترمذي في التختم في اليمين، وآخر حديث في دعاء الكرب، وعند الباقين [ يعني: من أصحاب السنن الأربعة ]حديث في تعدد الغسل للطواف على النساء . قلت: حديثه في دعاء الكرب؛ راجعته في (كتاب الدعاء) عند الترمذي؛ فلم أجده! وأما حديثه في التختم في اليمين؛ فأخرجه في (1/324- طبع بولاق) باب (ما جاء في لبس الخاتم في اليمين) من (كتاب اللباس) ثم قال عقيبه: وقال محمد بن إسماعيل: هذا أصح شيء روي في هذا الباب . فقول البخاري هذا- مع العلم أن في الباب أحاديث أخرى صحيحة الأسانيد، بعضها في صحيح مسلم - يفيد أن ابن رافع هذا ثقة عنده. وقد قوى الحديثَ الحافظُ ابن حجر في الفتح (1/299) ؛ حيث استدل به على استحياب الغسل بعد كل جماع. وقول المصنف: حديث أنس أصح منه ! ليس بطعن فيه؛ لأنه لم ينفِ الصحة عنه؛ كما قال في عون المعود ؛ خلافاً لما صرح به الحافظ في التلخيص (2/159) ! ثم قال في العون : قال النسائي: ليس بينه وبين حديث أنس اختلاف؛ بل كان يفعل هذا، وذلك أخرى. وقال النووي في شرح مسلم : هو محمول على أنه فعل الأمرين في وقتين مختلفين. والذي قالاه حسن جذاً، ولا تعارض بينهما؛ فمرة تركه رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ بياناً للجواز وتخفيفاً على الأمة، ومرة فعله؛ لكونه أزكى وأطهر . ثم إن الحديث أخرجه ابن ماجه (1/206) ، والطحاوي (1/77) ، والبيهقي (1/204) ، وأحمد (6/8 و 9- 10) من طرق عن حماد... به. وعزاه الحافظ للنسائي؛ فالظاهر أنه في الكبرى له.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابورافع ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ (ایک بار) اپنی ازواج کے پاس آئے اور ہر ایک کے ہاں غسل کیا۔ ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ (آخر میں) ایک ہی غسل نہیں کر لیتے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”یہ زیادہ پاکیزہ، عمدہ اور طہارت کا باعث ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ سیدنا انس ؓ کی حدیث (جو اوپر ذکر ہوئی) اس سے زیادہ صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابورافع ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک دن اپنی بیویوں کے پاس گئے، ہر ایک کے پاس غسل کرتے تھے۱؎۔ ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! ایک ہی بار غسل کیوں نہیں کر لیتے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ زیادہ پاکیزہ، عمدہ اور اچھا ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: انس ؓ کی روایت اس سے زیادہ صحیح ہے۲؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی ہر ایک سے جماع کر کے غسل کرتے تھے۔ ۲؎: یعنی اس سے پہلے والی حدیث (۲۱۸)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Rafi'(RA): One day the Prophet (ﷺ) had intercourse with all his wives. He took a bath after each intercourse. I asked him: Apostle of Allah (ﷺ), why don't you make it a single bath? He replied: This is more purifying, better and cleaning.