Abu-Daud:
Divorce (Kitab Al-Talaq)
(Chapter: The Abrogation Of Taking Back A Wife After The Third Divorce)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2200.
ابن طاؤس اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ابو الصہباء نے سیدنا ابن عباس ؓ سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں، ابوبکر ؓ کے عہد اور عمر ؓ کی امارت کے ابتدائی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنایا (شمار) کیا جاتا تھا؟ تو ابن عباس ؓ نے کہا: ہاں!۔
تشریح:
1۔ امت کے لیے حجت شرعیہ صرف اور صرف نبی ﷺ کا دور ہے۔ جبکہ شریعت نازل ہوئی اور مکمل ہوگئی۔ اور امام مالک ؒ کا یہ قول قول فیصل ہے۔(لن يصلح آخر هذه الامة الا ما صلح به اولها) اس امت کا آخری دور اسی سے اصلاح پذیر ہوگا جس ذریعے سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی تھی۔ 2۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ عہد رسالت عہد ابی بکر اور عہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ اس لیے یہ مسلک صحیح ہے۔ علاوہ ازیں عوام کی جہالت کا حل بھی یہی ہے؛ وہ طلاق کے صحیح طریقے سے بے خبر ہونے کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دے دیتے ہیں (حالانکہ ایسا کرنا سخت منع ہے) پھر پچھتاتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ اسے ایک طلاق شمار کیا جائے اور اسے رجوع کا حق دیا جائے۔ آج کل کے متعدد علمائے احناف نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے۔جس کی تفصیل ایک مجلس کی تین طلاقیں نامی کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح یہ مبحث عورتوں کے امتیازی مسائل وقوانین تالیف: حافظ صلاح الدین یوسف مطبوعہ دار السلام میں بھی ضروری حد تک موجود ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وأخرجه مسلم. وصححه الحاكم على شرط الشيخين، ووافقه الذهبي. وزاد مسلم في رواية: فقال عمر ابن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة؛ فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم) . إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا ابن جريج: أخبرني ابن طاوس عن أبيه.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير أحمد بن صالح، فهو على شرط البخاري، وقد توبع كما يأتي.. والحديث أخرجه الدارقطني (ص 445) ، والبيهقي (7/336) من طريق المصنف. وأخرجه الطحاوي في شرح المعاني (2/31) : حدثنا رَوْح بن الفَرَجِ قال: ثنا أحمد بن صالح... به. وهو في مصنف عبد الرزاق (11337) . ومن طريقه: أخرجه أحمد (1/314) ، ومسلم (4/184) ، والدارقطني (ص 444) ، والحاكم (2/196) كلهم من طرق أخرى عن عبد الرزاق... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ؛ ووافقه الذهبي. وقد وهما في قولهما: ولم يخرجاه ! فقد أخرجه مسلم. وتابعه جماعة عن ابن جريج... به. أخرجه مسلم والنسائي (2/96) ، والدارقطني. وتابعه معمر قال: أخبرني ابن طاوس... به: أخرجه عبد الرزاق (11336) ، ومن طريقه مسلم والطحاوي والدارقطني والبيهقي؛ وزادوا: فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة؛ فلوا أمضيناه عليهم! فأمضاه عليهم. وتابعه إبراهيم بن ميسرة عن طاوس... به. أخرجه مسلم وابن أبي شيبة (7/26) ، والدارقطني والبيهقي من طرق ثلاث عن حماد بن زيد عن أيوب السَّخْتِيَاني عنه... به. وخالفهم أبو النعمان عن حماد بن زيد... به، فقال: ن غير واحد عن طاوس... به؛ وزاد في متنه: قبل أن يدخل بها! وهي زيادة منكرة، كما شرحته في الضعيفة (1134) ؛ ولذلك أوردته في الكتاب الآخر (378) . وتابعه عمرو بن دينار أن طاوساً أخبره... به: أخرجه عبد الرزاق (11338) عن عمر بن حوشب عنه. وتابعه ابن أبي مليكة قال: سأل أبو الجوزاء ابن عباس: هل علمت... الحديث. أخرجه الدارقطني والحاكم، وقال: صحيح الإسناد ! من طريق عبد الله بن المؤمل عنه. وقال الدارقطني: هو ضعيف، ولم يروه عن ابن أبي مليكة غيره . وقال الذهبي في تعقبه على الحاكم:
قلت: ابن المؤمل ضعفوه . وروى هشام بن حُجَيْر عن طاوس قال: قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: قد كان لكم في الطلاق أناة؛ فاستعجلتم أناتكم، وقد أجزنا عليكم ما استعجلتم من ذلك. أخرجه سعيد بن منصور في سننه (3/259) . وإسناده إلى طاوس حسن. ثم روى عن الحسن في الرجل يطلق امرأته ثلاثاً بكلمة واحدة، فقال: قال عمر: لو حملناهم على كتاب الله، ثم قال: لا، بل نلزمهم ما ألزموا أنفسهم. ورجاله ثقات، لكن الحسن- وهو البصري- لم يسمع من عمر بن الخطاب. ومن طريق أخرى عنه: أن عمر بن الخطاب كتب إلى أبي موسى الأشعري: لقد هممت أن أجعل - إذا طلق الرجل امرأته ثلاثاً في مجلس- أن أجعلها واحدة، ولكن أقواماً جعلوا على أنفسهم، فأُلزِمُ كل نفس ما ألزم نفسه! من قال لامرأته: أنت عليَّ حرام؛ فهي حرام، ومن قال لامرأته: أنت بائنة؛ فهي بائنة، ومن قال: أنت طالق ثلاثاً؛ فهي ثلاث. وإسناده إلى الحسن صحيح.
قلت: وهذه الطرق تشهد لزيادة معمر- عند مسلم وغيره- المتقدمة، وهي صريحة في أن عمر رضي الله عنه إنما نفذها عليهم ثلاثاً باجتهاد من عنده؛ وإلا لم يكن ليحكم قبل ذلك بخلاف ذلك، ولا تردد أو تساءل في تنفيذها ثلاثاً. وقد فصل القول فرب المسألة شيخ الإسلام ابن تيمية في الفتاوى ، وتلميذه ابن القيم في إعلام الموقعين وغيره، وأثبتا أن الحديث محكم، لم ينسخه شيء؛ فمن شاء البسط فليرجع إليهما.
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
ابن طاؤس اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ابو الصہباء نے سیدنا ابن عباس ؓ سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں، ابوبکر ؓ کے عہد اور عمر ؓ کی امارت کے ابتدائی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنایا (شمار) کیا جاتا تھا؟ تو ابن عباس ؓ نے کہا: ہاں!۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امت کے لیے حجت شرعیہ صرف اور صرف نبی ﷺ کا دور ہے۔ جبکہ شریعت نازل ہوئی اور مکمل ہوگئی۔ اور امام مالک ؒ کا یہ قول قول فیصل ہے۔(لن يصلح آخر هذه الامة الا ما صلح به اولها) اس امت کا آخری دور اسی سے اصلاح پذیر ہوگا جس ذریعے سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی تھی۔ 2۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ عہد رسالت عہد ابی بکر اور عہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ اس لیے یہ مسلک صحیح ہے۔ علاوہ ازیں عوام کی جہالت کا حل بھی یہی ہے؛ وہ طلاق کے صحیح طریقے سے بے خبر ہونے کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دے دیتے ہیں (حالانکہ ایسا کرنا سخت منع ہے) پھر پچھتاتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ اسے ایک طلاق شمار کیا جائے اور اسے رجوع کا حق دیا جائے۔ آج کل کے متعدد علمائے احناف نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے۔جس کی تفصیل ایک مجلس کی تین طلاقیں نامی کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح یہ مبحث عورتوں کے امتیازی مسائل وقوانین تالیف: حافظ صلاح الدین یوسف مطبوعہ دار السلام میں بھی ضروری حد تک موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): Tawus said: AbusSahba' said to Ibn 'Abbas (RA): Do you know that a divorce by three pronouncements was made a single one during the time of the Prophet (ﷺ) , and of AbuBakr and in the early days of the caliphate of 'Umar? He replied: Yes.