Abu-Daud:
Divorce (Kitab Al-Talaq)
(Chapter: Regarding An Irrevocable (Al-Battah) Divorce)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2208.
عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو بتہ طلاق دے دی تھی۔ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا: ”تم نے کیا ارادہ کیا تھا؟“ اس نے کہا: ایک کا۔ آپ نے کہا: ”اللہ کی قسم سے کہتے ہو؟“ کہا: اللہ کی قسم سے کہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ وہی ہے جو تم نے ارادہ کیا۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ روایت ابن جریج کی (گذشتہ) روایت (2196) سے صحیح تر ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ یہ لوگ اس کے اپنے گھر والے ہیں، اور یہ اس کے متعلق بہتر جانتے ہیں۔ اور ابن جریج کی روایت ابورافع کے کسی بیٹے نے عکرمہ سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
تشریح:
اس روایت کی صحت میں اختلاف ہے۔ ہمارے فاضل محقق شیخ زبیر علی زئی اور بعض محقیقین کے نزدیک ضعیف ہے ابوداؤد کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث ابن جریج کی حدیث سے صحیح تر ہے کا یہ معنی ہے کہ یہ فی الواقع اصطلاحی تعریف کے مطابق صحیح ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ سند دوسری کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے۔ مگر حقیقتا دونوں ہی میں ضعف ہے۔ (دیکھیے ارواءالغلیل:1437)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ مسلسل بالعلل: جهالة حال علي بن يزيد بن ركانة. واضطرابُه في إسناده؛ فمرةً قال: عن جدِّه- يعني: يزيد بن ركانة-؛ كما هنا. ومرةً قال: عن جده ركانة بن عبد يزيد. ومرة أرسله؛ فلم يذكر أباه وجده. وابنه عبد الله بن علي: ضعيف. ومثله الزبير بن سعيد. وقال مرة: عن عبد الله بن علي بن السائب .. مكان: عبد الله بن علي بن يزيد. وقد رواه غيره عنه مخالفاً له في إسناده؛ كما في الحديث الذي قبله. وقد أعله البخاري والعقيلي بالاضطراب. وقال البخاري: لم يصح . وقال العجلي: حديث منكر ) . إسناده: حدثنا سليمان بن داود: ثنا جرير بن حازم عن الزبير بن سعيد. قال أبو داود: وهذا أصح من حديث ابن جريج: أن ركانة طلق امرأته ثلاثاً. لأنهم أهل بيته؛ وهم أعلم به. وحديث ابن جريج رواه عن بعض بني أبي رافع عن عكرمة عن ابن عباس... .
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ فيه الجهالة والاضطراب والضعف المبين آنفاً وهو خلاصة ما حققته على هذا الحديث في الإرواء (2063) ؛ فأغنى عن الإعادة. وحديث ابن جريج الذي علقه المصنف- وقال: إن حديث الباب أصح منه -، هو من حصة الكتاب الآخر (1906) ، وفي ذلك إشارة إلى أنه خلاف ما قال المصنف، أعني: أنه أصح من حديث الباب، وذلك لأن بعض بني أبي رافع قد توبع عليه؛ فارتقى الحديث بذلك إلى مرتبة الحسن، كما هو مبين هناك. واعلم أن الدارقطنيّ أخرج الحديث من رواية المصنف بإسناده المتقدم عن نافع ابن عجير...، وقال عقبه: قال أبو داود: وهذا حديث صحيح . ونقله المنذري عنه دون أن يعزوه إليه، ثم رده بقوله: وفيما قاله نظر؛ فقد تقدم عن الإمام أحمد أن طُرقه ضعيفة، وضعفه أيضاً البخاري . وتعقبه ابن القيم فقال: وفيما قاله المنذري نظر؛ فإن أبا داود لم يحكم بصحته، وإنما قال- بعد روايته-: هذا أصح من حديث ابن جريج...، وهذا لا يدل على أن الحديث عنده صحيح؛ فإن حديث ابن جريج ضعيف- وهذا ضعيف أيضاً-، فهذا أصح الضعيفين عنده، وكثيراً ما يطلق أهل الحديث هذه العبارة على أرْجحِ الحديثين الضعيفين، وهو كثير في كلام المتقدمين. ولو لم يكن اصطلاحاً لهم؛ لم ت ل اللغة على إطلاق الصحة عليه، فإنك تقول لأحد المريضين: هذا أصحُ من هذا.. ولا يدل على أنه صحيح مطلقاً . والخلاصة: أن تأويل قول المصنف: أصح بـ: صحيح .. خطأ من الدارقطني، وليس من المنذري. والله أعلم.
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو بتہ طلاق دے دی تھی۔ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا: ”تم نے کیا ارادہ کیا تھا؟“ اس نے کہا: ایک کا۔ آپ نے کہا: ”اللہ کی قسم سے کہتے ہو؟“ کہا: اللہ کی قسم سے کہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ وہی ہے جو تم نے ارادہ کیا۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ روایت ابن جریج کی (گذشتہ) روایت (2196) سے صحیح تر ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ یہ لوگ اس کے اپنے گھر والے ہیں، اور یہ اس کے متعلق بہتر جانتے ہیں۔ اور ابن جریج کی روایت ابورافع کے کسی بیٹے نے عکرمہ سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت کی صحت میں اختلاف ہے۔ ہمارے فاضل محقق شیخ زبیر علی زئی اور بعض محقیقین کے نزدیک ضعیف ہے ابوداؤد کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث ابن جریج کی حدیث سے صحیح تر ہے کا یہ معنی ہے کہ یہ فی الواقع اصطلاحی تعریف کے مطابق صحیح ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ سند دوسری کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے۔ مگر حقیقتا دونوں ہی میں ضعف ہے۔ (دیکھیے ارواءالغلیل:1437)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
رکانہ بن عبد یزید ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا: ”تم نے کیا نیت کی تھی؟“ انہوں نے کہا: ایک کی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس کا تم نے ارادہ کیا ہے وہی ہو گا۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ روایت ابن جریج والی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی کیونکہ یہ روایت ان کے اہل خانہ کی بیان کردہ ہے اور وہ حقیقت حال سے زیادہ واقف ہیں اور ابن جریج والی روایت بعض بنی رافع (جو ایک مجہول ہے) سے منقول ہے جسے وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس ؓ سے، (دیکھئیے حدیث نمبر: ۲۰۹۶)
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rukanah ibn 'Abdu Yazid: (Rukanah) divorced his wife absolutely; so he came to the Apostle of Allah (ﷺ) . He asked (him): What did you intend? He said: A single utterance of divorce. He said: Do you swear by Allah? He replied: I swear by Allah. He said: It stands as you intended. Abu Dawud said: This tradition is sounder than that of Ibn Juraij that Rukanah divorced his wife by three pronouncements, for they are the members of his family and they are more aware for him. The tradition of Ibn Juraij has been narrated by some children of Abu Rafi' from 'Ikrimah on the authority of Ibn 'Abbas (RA).