مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2225.
امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن عیسیٰ کو یہ روایت بیان کرتے سنا، وہ اسے بواسطہ معتمر، حکم بن ابان سے روایت کرتے تھے اور اس میں ابن عباس ؓ کا ذکر نہیں کیا۔ (بلکہ عکرمہ سے روایت کی ہے۔ یعنی سند مرسل ہے۔)
تشریح:
ظہار کی صورت میں مباشرت سے پہلے کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ جیسے کہ سورہ المجادلہ کی آیات میں پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ لیکن اگر کوئی قبل ازکفارہ مباشرت کر بیٹھے تو بھی وہی کفارہ ادا کرنا ہوگا البتہ اس صورت میں وہ حکم الہی کی مخالفت کا مرتکب متصور ہوگا۔ اللہ تعالی نے ظہار کے کفارے کی بابت فرمایا ہے کہ ایک گردن آزاد کرے اگر یہ نہ ہوسکے تو دوماہ کے لگاتار روزے رکھے اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اس آیت میں مطلق کھانا کھلانے کا حکم ہے مقدار کا بیان نہیں۔ البتہ احادیث میں مقدار کی بابت مختلف اوزان بتائے گئے ہیں مثلا نبی کریم ﷺ نے حضرت سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ایک وسق (ساٹھ صاع) کھجور ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کردو۔ یہ روایت محققین کے نزدیک حسن درجے کی ہے اور دوسری روایت میں اوس بن صامت کی بابت آتا ہے کہ ان کی طرف سے ایک ٹوکرا کھجور بطور کفارہ ظہار دیا گیا۔ اس ٹوکرے کھجور بطور کفارہ ظہار دیا گیا ہے۔ اس ٹوکرے کے وزن کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ بعض روایات میں اس کے وزن کی مقدار ساٹھ صاع بتائی گئی ہے اور بعض میں تیس صاع اور بعض روایات میں پندرہ صاع۔۔ لیکن شیخ البانی ؒنے پندرہ صاع والی روایت کو راجح قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس ٹوکرے کے وزن میں ساٹھ اور تیس صاع والےالفاظ کو غیر صحیح قرار دیا ہے۔دیکھیئے صحیح سنن ابی داؤد حدیث :2215۔ 2214۔ لہذا اس بحث سے معلوم ہوا کہ اول الزکر روایت کی رو سے ایک وسق اور دوسری روایت کی رو سے پندرہ صاع کا کھانا مسکینوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں روایات میں تطبیق اس طرح ہے کہ اگر کوئی فقر اور تنگ دستی میں بسر کر رہا ہو تو وہ کم ازکم پندرہ صاع کفارہ ادا کرے اور اگر اللہ تعالی نے کسی کو مال ودولت میں فراوانی عطا کر رکھی ہوتو وہ ایک وسق (ساٹھ صاع) کفارہ ادا کرے۔ واللہ اعلم
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وانظر ما قبله بحديث) . إسناده: قال أبو داود: كتب إليَّ الحسين بن حُرَيْثٍ قال: أخبرنا الفضل بن موسى عن معمر عن الحكم بن أبان عن عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ غير الحكم، وهو مضعف، كما سبق؛ على اضطرابه في إسناده، فتارة أرسله- وهو الأكثر-، وتارة أسنده، وانظر الرواية المتقدمة؛ و الإرواء . وجملة القول: فأحاديث الباب كلها معلولة، لكن بعضها يشهد لبعض. والله أعلم.
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن عیسیٰ کو یہ روایت بیان کرتے سنا، وہ اسے بواسطہ معتمر، حکم بن ابان سے روایت کرتے تھے اور اس میں ابن عباس ؓ کا ذکر نہیں کیا۔ (بلکہ عکرمہ سے روایت کی ہے۔ یعنی سند مرسل ہے۔)
حدیث حاشیہ:
ظہار کی صورت میں مباشرت سے پہلے کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ جیسے کہ سورہ المجادلہ کی آیات میں پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ لیکن اگر کوئی قبل ازکفارہ مباشرت کر بیٹھے تو بھی وہی کفارہ ادا کرنا ہوگا البتہ اس صورت میں وہ حکم الہی کی مخالفت کا مرتکب متصور ہوگا۔ اللہ تعالی نے ظہار کے کفارے کی بابت فرمایا ہے کہ ایک گردن آزاد کرے اگر یہ نہ ہوسکے تو دوماہ کے لگاتار روزے رکھے اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اس آیت میں مطلق کھانا کھلانے کا حکم ہے مقدار کا بیان نہیں۔ البتہ احادیث میں مقدار کی بابت مختلف اوزان بتائے گئے ہیں مثلا نبی کریم ﷺ نے حضرت سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ایک وسق (ساٹھ صاع) کھجور ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کردو۔ یہ روایت محققین کے نزدیک حسن درجے کی ہے اور دوسری روایت میں اوس بن صامت کی بابت آتا ہے کہ ان کی طرف سے ایک ٹوکرا کھجور بطور کفارہ ظہار دیا گیا۔ اس ٹوکرے کھجور بطور کفارہ ظہار دیا گیا ہے۔ اس ٹوکرے کے وزن کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ بعض روایات میں اس کے وزن کی مقدار ساٹھ صاع بتائی گئی ہے اور بعض میں تیس صاع اور بعض روایات میں پندرہ صاع۔۔ لیکن شیخ البانی ؒنے پندرہ صاع والی روایت کو راجح قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس ٹوکرے کے وزن میں ساٹھ اور تیس صاع والےالفاظ کو غیر صحیح قرار دیا ہے۔دیکھیئے صحیح سنن ابی داؤد حدیث :2215۔ 2214۔ لہذا اس بحث سے معلوم ہوا کہ اول الزکر روایت کی رو سے ایک وسق اور دوسری روایت کی رو سے پندرہ صاع کا کھانا مسکینوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں روایات میں تطبیق اس طرح ہے کہ اگر کوئی فقر اور تنگ دستی میں بسر کر رہا ہو تو وہ کم ازکم پندرہ صاع کفارہ ادا کرے اور اگر اللہ تعالی نے کسی کو مال ودولت میں فراوانی عطا کر رکھی ہوتو وہ ایک وسق (ساٹھ صاع) کفارہ ادا کرے۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے محمد بن عیسیٰ کو اسے بیان کرتے سنا ہے، وہ کہتے ہیں ہم سے معتمر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: میں نے حکم بن ابان کو یہی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے وہ اسے عکرمہ سے روایت کر رہے تھے اس میں انہوں نے ابن عباس ؓ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Dawud said “I heard Muhammad bin Isa narrating this tradition who said Mu’tamar narrated it to us. And he (Mu’tamar) said “ I heard Al Hakam bin Aban narrating this tradition. He did not mention the name of Ibn ‘Abbas.