باب: سحری کو «غداء » ( یعنی صبح کا کھانا ) کہنا جائز ہے
)
Abu-Daud:
Fasting (Kitab Al-Siyam)
(Chapter: Whoever Called Sahur, "Al-Ghada" (Breakfast))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2345.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”کھجور مومن کی بہترین سحری ہے۔“
تشریح:
کجھور سر تا پا ایک مبارک درخت ہے۔ اور اس کا پھل سحری اور افطاری میں استعمال کرنا مستحب ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصححه ابن خزيمة وابن حبان) . إسناده: حدثنا عمرو بن محمد الناقد: ثنا حماد بن خالد الخياط: ثنا معاوية ابن صالح عن يونس بن سيف عن الحارث بن زياد عن أبي رُهْم عن العرباض بن سارية. قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ غير الحارث بن زياد- وهو الشامي- مجهول، كما قال الذهبي في المغني ؛ تبعاً لابن عبد البر، فقد نقل عنه المنذري - ثم الحافظ- أنه قال فيه: مجهول، وحديثه منكر ! كذا قال! أما أنه مجهول فلا كلام، وإن ذكره ابن حبان في الثقات ؛ فإنه لم يَرْوِ عنه غير يونس هذا؛ كما في الميزان . وأما أن حديثه منكر؛ فإن كان يعني سنداً؛ فَمُسَلَمٌ ، وإن كان يعني متناً؛ فمردود؛ لأن له شواهد يتقوى بها كما يأتي. والحديث أخرجه النسائي (1/304) ، وابن خزيمة (1938) ، وابن حبان (882) ، والبيهقي (4/236) ، وأحمد (4/126 و 127) كلهم من طريق عبد الرحمن ابن مهدي عن معاوية بن صالح... به؛ إلا أن أحمد قال: الغِذاء - بالذال المعجمة في الموضعين-! وهو عنده في الموضع الأول بإسناد المؤلف: ثنا حماد بن خالد الخياط... وأما شواهد الحديث؛ فهي: أولاً: عن المقدام بن مَعْدِي كَرِبَ... مرفوعاً؛ بلفظ: عليكم بغداء السُحور؛ فإنه هو الغد ء البارك . أخرجه النسائي من طريق بقية بن الوليد قال: أخبرني بَحيِز بن سعد عن خالد بن مَعْدَان عنه. وهذا إسناد جيد، رجاله كلهم ثقات، وقد صرح بقية بالتحديث. لكنه قد خولف- هو أو شيخه- في وصله، فرواه النسائي وعبد الرزاق (7600) عن ثور بن يزيد عن خالد بن معدان قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لرجل: هلم إلى الغداء البارك ؛ يعني: السحور. وهذا مرسل صحيح الإسناد؛ فهو شاهد قوي على كل حال، سواءٌ ثبت وصله أو لا. ثانياً: عن أبي الدرداء مرفوعاً... نحوه: أخرجه ابن حبان (881) عن إسحاق بن إبراهيم بن العلاء الزبَيْدِي: حدثنا عمرو بن الحارث- هو ابن الضحاك-: حدثني عبد الله بن سالم عن راشد بن سعد عنه. وهذا إسناد ضعيف؛ إسحاق هذا؛ قال الحافظ: صدوق يهم كثيراً، وأطلق محمد بن عوف أنه يكذب . وابن الضحاك غير معروف العدالة، كما قال الذهبي، لكنه لم يتفرد به، فقد رواه ابن عدي وغيره من طريق آخر عن راشد بن سعد عن عتبة بن عبد وأبي الدرداء معاً، وهو مخرج في سلسلة الأحاديث الضعيفة (1961) ؛ لزيادة وقعت في أوله. ثالثا: عن عائشة قالت: قال رسول الله: قَرِّبِي إلينا الغَدَاءَ المبارك ؛ يعني: السحور، وربما لم يكن إلا ت رتين. قال الهيثمي في مجمع الزوائد (3/151) : رواه أبو يعلى، ورجاله ثقات ! وكذا قال ! وانظر مسند أبي يعلى (4679) . رابعاً: عن ابن عباس قال: أرسل إلي عمر بن الخطاب يدعوني إلى السحور، وقال: إن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سمّاه الغداءَ المبارك. رواه الطبراني في الأوسط ، ومن طريقه الخطيب في التاريخ (1/387) . وقال الطبراني: لا نعلم رواه عن ابن عيينة إلا محمد بن إبراهيم أخو أبي معمر .
قلت: وهو صدوق لا بأس به، كما قال الحافظ موسى بن هارون الحمال. وسائر رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير شيخ الطبراني أحمد بن القاسم بن مُسَاوِر الجوهري، وهو ثقة كما قال الخطيب (4/349) .
صوم یا صیام (مصدر )کے مغوی معنی امساک ،یعنی کسی چیز سے رکنے کی کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں یہ اللہ تعالی کی ایک عبادت ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالی کے حکم سے تمام مفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں ،مثلا کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت کرنا )سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک رکا رہتا ہے یہ ساری چیزیں اگرچہ حلال ہیں لیکن روزے کی حالت میں یہ چیزیں ممنوع ہیں اس لئے اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ تعالی کے حکم پر فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ،ان تمام چیزوں سے بچ کر رہنے کا نام روزہ ہے ۔
مقصد: روزہ رکھنے کا مقصد حصول تقویٰ ہے جیسا کہ (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)’’ تا کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘سے ثابت ہوتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ہمیشہ تیار رہنے اور منہیات سے باز رہنے کی یہ ایک عملی تربیت ہے-
اھمیت و فرضیت:روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے قرآن مجید میں ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیاہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا۔‘‘ حدیث میں ہے’’اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں :اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا‘رکوٰۃادا کرنا ‘رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘(صحيح البخارى .حديث&8 و صحيح مسلم حديث 16)سورۂ بقرہ میں آیت :183 سے :187 تک روزوں کی فرضیت اور دیگر مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔ رمضان المبارک کے روزوں کی بابت نبئ اکرمﷺ نے فرمایا: جس ن رمضان کے روزے رکھے ‘ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1901) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں‘جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ‘ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں ‘بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم‘الطہارۃ‘حدیث:233)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں آتا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری‘ الصوم‘حدیث:1899‘وبد ءالخلق‘ حدیث:3277)روزے کے اجر کی بابت نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے ہر عمل کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے لیکن روزے کے اجر و ثواب کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا کیونکہ روزہ دار نے اپنی ساری خواہشات اور کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑا ہے۔مزید آپ نے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904)فرض روزوں کے لیے رات طلوع فجر سے قبل روزے کی نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جس نے فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘(سنن ابی داود‘الصیام‘حدیث:2454)رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے ‘ رات کو تراویح(قیام اللیل) کا اہتمام کرتا ہے اور سحری وغیرہ کا انتظام بھی کرتا ہے اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبئ کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں الفاظ لکھے ہوتے ہیں(وَبِصَومِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)اس کی کوئی سند نہیں ہے‘ بالکل بے اصل ہے یہ دعا معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔روزے کا وقت طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے صبح صادق سے پہلے سحری کھالی جائے اور پھر سورج غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کھانا ضروری نہیں اور وہ رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں یہ دونوں باتیں ہی سنت رسول سے ثابت نہیں ہیں۔رسول اللہ کا فرمان ہے:’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔‘‘(صحیح مسلم‘ الصیام‘ حدیث:1096)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضرور کھانی چائیے چاہے ایک دو لقمے ہی کیوں نہ ہوں اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے یعنی بالکل آخر ی وقت میں کھایا کرتے تھے لہذا ہمیں بھی اس طریق نبوی کی اپنانا چاہیے یقینا ہمارے لیے اس میں بڑے فائدے فائدے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے روزے کو ان اقوال و اعمال سے بچائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ کیونکہ روزے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اطاعت اور بندگی کی جائے ‘ اس کی محرمات کی تعظیم بجا لائی جائے ‘نفس کے خلاف جہاد کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں اس نفس کی خواہش کی مخالفت کی جائے اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو حرام قرار دیا ہے ان پر صبر کا نفس کو عادی بنایا جائے کیونکہ روزے سے محض یہ مقصود نہیں ہے کہ کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو ترک کر دیا جائے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شور وغوغا کرے‘ اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904) اسی طرح آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص جھوٹی بات‘ اس کے مطابق عمل اور جہالت کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا تر ک کرے۔(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1903) مذکورہ بالا اور دیگر نصوص سے یہ معلوم ہوا کہ روزے دار پر واجب ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیا ہے کیونکہ اسی عمل ہی سے مغفرت ‘جہنم سے آزادی اور صیام و قیام کی قبولیت کی اُمید کی جا سکے گی۔(روزہ سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھیے کتاب ’’ رمضان المبارک ‘فضائل‘ فوائد و ثمرات ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف ‘ مطبوعہ دارالسلام)